
سوال:- آج کل چوںکہ خاندان مختصر ہوگئے ہیں، گھر کا دائرہ شوہر بیوی اور بیٹے بہو تک محدود ہوگیا ہے، عموماً جب ماں باپ بوڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کو خدمت کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ دور میں عام طورپر بہو ساس کی خدمت نہیں کرنا چاہتی ہے،
کہتی ہے کہ ہم پر ساس سسر کی خدمت واجب نہیں ہے، آخر ایسی صورت میں بوڑھے ماں باپ کے مسائل کس طرح حل ہوں گے ؟( تحسین احمد، کوکٹ پلی)
جواب:-یہ بات درست ہے کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت اس کے بیٹے اوربیٹیوں پر واجب ہے ؛ لیکن اگر بیٹے موجود نہ ہوں، یا ضرورت کی بناء پر کسب معاش میں مشغول ہوں ، بیٹیاں کسی اور شہر میں رہتی ہوں اور ان کے شوہر ان کو اپنے والدین کی خدمت کی اجازت نہیں دیں تو آخر والدین کی دشواریاں کس طرح حل ہوں گی؟
جن ماں باپ نے ہر طرح کی مشقت اُٹھاکر اپنی اولاد کی پرورش کی ہے، کیا ان کو بے سہارا چھوڑ دیا جائے کہ وہ سسک سسک کر اپنی جان دے دیں، یہ یقیناً غیر اسلامی اور غیر انسانی حرکت ہوگی ، اگر ماں باپ اپنی خدمت کے لئے بہو کے محتاج نہیں ہوں تب تو بہو پر ان کی خدمت کرنا واجب نہیں ہے اور وہ ساس سسر سے الگ اپنی رہائش کا مطالبہ کرسکتی ہے :
تجب السکنٰی لھا علیہ فی بیت خال عن أھلہ وأھلھا إلا أن تختار ذلک کذا فی العینی ۔ (فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۵۵۶)
لیکن اگر ساس سسر کی خدمت کے لئے کوئی متبادل صورت نہ ہو تو بہو پر اپنے ماں باپ کی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت واجب ہے ، فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ ایسے حالات میں شوہر اپنے بیوی بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ رکھے ؛ تاکہ ان کی ضروریات بھی پوری ہو:
و إن کان الوالد لا یقدر علی عمل أو کان زمناً وللابن عیال کان علی الابن أن یضم الأب إلی عیال و ینفق علی الکل ۔ (البحر الرائق : ۴؍۳۴۹)
اس لئے بیٹا کے فریضہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو سمجھائے ، اس کو اپنے ماں کی خدمت کی تاکید کرے اور یہ بھی بتائے کہ جب کل ہوکر تم اس حالت کو پہنچو گی تو وہی عمل تمہاری بہو کا تمہارے ساتھ ہوگا ۔