مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان 16 جنوری کو شروع ہونے والی جنگ بندی اس وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگئی، جب صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس کے بعض نکات پر عمل درآمد سے انکار کیا۔ خاص طور پر انسانی حقوق سے متعلق پہلے مرحلے کی شرائط اور دوسرے مرحلے کے آغاز کو نظر انداز کیا۔ حماس نے جنگ بندی کے تحت اسرائیلی قیدی رہا کیے۔
فلسطینی مقاومت نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے قیدیوں کے تبادلے کے تحت تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا، جن میں الیگزنڈر تروبنوف، ساگی دکل ہان اور یائر ہورن شامل ہے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل کو 369 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا، جن میں عمر قید کی سزا پانے والے 36 قیدی اور طوفان الاقصی کے بعد گرفتار ہونے والے 333 قیدی تھے۔
قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں اس وقت زیادہ کشیدگی پیدا ہوئی جب صدر ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی کہ اگر 15 فروری 2025 کی دوپہر تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ کو جہنم میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ تاہم حماس نے اس دھمکی کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ صرف ان شرائط پر عمل کرے گی، جو مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں طے پائی تھیں۔
حماس نے امریکی صدر کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے معاہدے کے مطابق صرف تین صہیونی یرغمالیوں کو رہا کردیا۔ اس غیر متوقع اقدام کے بعد اسرائیلی کابینہ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا تاکہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی باقی شرائط پر غور کیا جا سکے۔
حماس کی شرائط پر سختی سے قائم رہنے کی حکمت عملی نے اسرائیلی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ اور اسرائیل اس جنگ بندی کو آگے بڑھائیں گے یا نئے حملے کا بہانہ تراشیں گے؟
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں انسانی حقوق کے پروٹوکول پر عملدرآمد میں تاخیر کی۔ ہفتے کی شام کو کابینہ اجلاس کے بعد نتن یاہو نے غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس معاملے پر مزید تبادلہ خیال کرنے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے اس بات کو چند دنوں تک مؤخر کرنے کی کوشش کی، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ اس معاملے کو واشنگٹن کے ساتھ مشاورت کے بعد حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
صہیونی میڈیا کے مطابق نتن یاہو اس فیصلے میں امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ ٹرمپ کی ہدایات کے مطابق عمل کرسکیں۔ تاہم یہ تاخیر اسرائیلی کابینہ میں داخلی تناؤ کو بڑھا رہی ہے۔ سابق وزیرداخلہ ایتامار بن گویر نے نتن یاہو کی پالیسی کو تاریخی غلطی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل حماس کو کسی قسم کی رعایت دے تو غزہ میں جنگی کامیابیاں اور فوائد ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
بن گویر نے کہا کہ جس طرح حماس کے جنگجو تویوٹا گاڑیوں میں واپس آ رہے ہیں، اور اسرائیل انہیں اتنی بڑی امداد فراہم کررہا ہے، اس سے واضح ہے کہ حماس کا غزہ پر کنٹرول برقرار رہے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر 10 فروری کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے سامنے اپنے مغرور اور تکبر سے بھرے لہجے میں حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تمام یرغمالیوں کو 15 فروری کو دوپہر 12 بجے تک آزاد نہیں کیا گیا تو میرے خیال میں یہ ایک اچھا وقت ہے کہ ہم اس معاہدے کو ختم کر دیں، یعنی تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے اور جھنم کی آگ بھڑک اٹھے گی۔
ٹرمپ اور نتن یاہو کو گمان تھا کہ ان کی دھمکیوں سے مقاومت کے ارادے متزلزل ہو جائیں گے اور حماس کو ان کی خواہشات کے مطابق یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ لیکن مقاومت کی جانب سے آنے والا جواب ایک واضح اور پرعزم پیغام تھا۔
حماس نے صرف 3 اسیران کے نام اور ان کی رہائی کا مقام واضح کیا، اور پھر بین الاقوامی ریڈکراس کے ذریعے ان یرغمالیوں کو آزاد کردیا۔ اس اقدام کے ساتھ حماس نے ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کا پہلا جواب دیا، جو ایک طرح سے ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ تھا۔
حماس کا یہ اقدام نہ صرف ایک سیاسی اور سکیورٹی کامیابی تھا بلکہ نفسیاتی اور میڈیا وار کا بھی حصہ تھا جس نے نہ صرف ٹرمپ بلکہ دنیا بھر کو اس حوالے سے ایک مضبوط پیغام بھیجا۔ حماس نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو نظرانداز کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور پرامن مذاکرات کی جانب قدم بڑھایا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے سامنے اپنی قوت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
حماس کی جانب سے صدر ٹرمپ کی دھمکی کو مکمل نظرانداز کرنا نہ صرف مغرور ٹرمپ پر زور دار طمانچہ تھا بلکہ اس نے ٹرمپ کو اخلاقی اور سیاسی طور پر ایک نازک حالت میں ڈال دیا۔ ٹرمپ نے صورتحال کو دیکھا اور پھر اپنی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے گیند اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی اور نتن یاہو کو مشورہ دیا کہ وہ حماس کو مناسب جواب دیں۔
اس آبروریزی کے بعد ایک اسرائیلی ذریعے نے بتایا کہ ٹرمپ چاہتا تھا کہ حماس کے ساتھ معاہدے کو اس طرح بدلا جائے کہ تمام صہیونی یرغمالیوں کی آزادی دوسرے مرحلے سے پہلے ہو۔ بعض ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا کہ نتن یاہو نے جنگ بندی کی مدت کو بڑھانے کی تجویز دی ہے تاکہ تمام یرغمالی آزاد ہوجائیں۔
اسی دوران امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے ہفتہ کی شام تل ابیب کا دورہ کیا اور نتن یاہو کے ساتھ مقبوضۃ بیت المقدس میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے لیے ایک نئے منصوبے پر بات چیت کی گئی جس میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر پڑوسی ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز شامل تھی۔
قیدیوں کے تبادلے کے چھٹے مرحلے میں حماس کی استقامت اور جرائت مندانہ موقف کی وجہ سے نتن یاهو کی واشنگٹن میں ٹرمپ کے وعدوں اور ان کی حمایت سے خوشی، اور غزہ اور مقاومت کے خلاف اس کے بڑھتے ہوئے بیانات زیادہ دیر تک نہیں چل سکے۔ مقاومت کے ٹھوس اور معقول اقدامات نے اس کے مقاصد کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
جہاں عام طور پر توقع کی جارہی تھی کہ قیدیوں کی رہائی کے چھٹے مرحلے میں صہیونی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ٹرمپ کی دھمکیوں کے اثرات سے متعلق کچھ مختلف صورتحال پیش آئے گی، وہاں مقاومت نے مزید بہتر اور منظم طریقے سے ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب دیا اور امریکہ اور اسرائیل کی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک نیا مرحلہ پیش کیا۔ یہ اقدام نتن یاہو کے لیے ایک نئے بحران کا آغاز ثابت ہوا اور اسرائیل میں اس کے خلاف ناراضگی اور تنقید میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اس صورتحال کے بعد نتن یاہو پر دباؤ بڑھا کہ وہ صہیونی یرغمالیوں کے مستقبل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ذاتی مفادات کو مدنظر رکھے بغیر معاہدے کو مکمل کرے۔ اس میں سب سے زیادہ دباؤ یرغمالیوں کے خاندانوں کی طرف سے آیا، جو چاہتے ہیں کہ قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا مرحلہ جلد اور بغیر کسی مزید تاخیر کے مکمل کیا جائے۔
کابینہ کے اندر سے بھی نتن یاہو پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ نتن یاہو کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اورین سیٹر نے اس حوالے سے کہا کہ ہم نے مارچ اور جولائی میں معاہدے پر دستخط کے دو مواقع ضائع کیے ہیں۔ یہ نتن یاہو کے سیاسی مفادات اور ذاتی خواہشات کی وجہ سے ہوا۔
یرغمالیوں کے خاندانوں اور نتن یاہو کے مخالفین نے ہفتے کی رات تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں بڑے مظاہرے کیے تاکہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا آغاز اور اس کے عملدرآمد کا مطالبہ کیا جاسکے۔ مظاہرین نے کہا کہ وہ نتن یاہو کو اس معاہدے کو روکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اگرچہ نتن یاہو نے پہلے مرحلے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تھی اور غزہ میں انسانی امداد کے پروٹوکول کو شروع کرنے سے گریز کیا تھا تاکہ مقاومت سے مزید فوائد حاصل کیے جاسکیں، اب گیند نتن یاہو کے کورٹ میں ہے۔
دوسرے مرحلے کا آغاز پہلے مرحلے کی مکمل تکمیل پر منحصر ہے تاکہ جو کچھ نتن یاہو نے غزہ میں مدد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی تھیں، وہ بے اثر ہو جائے۔ دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا آغاز اگلے ہفتے ہونا ہے تاہم ابھی تک اس کے آغاز کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ اس صورتحال نے معاہدے کو ایک سنگین موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں جنگ بندی کا مستقبل ابھی تک زیادہ واضح نہیں ہے۔