
نئی دہلی: مہاراشٹرا میں حاجی ملنگؒ درگاہ کاایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیاہے جس میں چند افراد کو زعفرانی پرچم لہراتے اور جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔
یہ واقعہ سالانہ عرس تقاریب کے دوران پیش آیا جس کی وجہ سے اس مقام کی مذہبی شناخت کے بارے میں دیرینہ تنازعہ دوبارہ ابھر آیا ہے۔ ہندو گروپس کا دعوی ہے کہ یہ ایک مندر ہے اور مسلمان اسے درگاہ قرار دیتے ہیں۔ اس ویڈیو کی وجہ سے حکام پر بھی تنقیدیں کی جارہی ہیں جہاں ایک پولیس عہدیدار کو خاموش تماشائی بنا دیکھاجاسکتاہے۔
وائرل ویڈیو میں چند نوجوانوں کو درگاہ کے قریب جے شری رام کے نعرے لگاتے اور زغفرانی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔ پس منظر میں بجنے والی موسیقی کے بول یوں ہیں ”اے بھوانی شکتی دے‘ ملنگ گاڈ کو مکتی دے۔“ یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ یہ ویڈیو کب بنایاگیا لیکن اس کے منظر عام پر آنے سے بڑے پیمانہ پر برہمی پھیل گئی ہے اور بحث چھڑ گئی ہے۔
درگاہ کمیٹی نے ان دعوؤں کی پر زور تردید کی ہے کہ یہ مقام ایک ہندو مندر ہے۔ کمیٹی کے ایک رکن نے کہاکہ یہ ایک درگاہ ہے جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے عبادت کا مقام ہے۔ اس کی مذہبی اہمیت کو گھٹانے کے لیے ایسی کوششیں ناقابل قبول ہیں۔ دوسری جانب ہندوگروپس کا دعویٰ ہے کہ یہ مقام دراصل ان کا ہے۔ایک نمائندہ نے کہاکہ یہ ایک مندر ہے‘ ہمارے آبا و اجداد یہاں پوجا کیا کرتے تھے۔
ہم اپنے ورثہ پر دعوی کررہے ہیں۔ اس ویڈیو کاانتہائی متنازعہ پہلو یہ ہے کہ ایک پولیس عہدیدار کو پس منظر میں کھڑا ہوا دیکھا جاسکتاہے جو اقدام کئے بغیر اس واقعہ کا مشاہدہ کررہاتھا۔ عوام کا کہناہے کہ فوری مداخلت نہ کرنے پر ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔ سماجی جہد کار عمران خان نے اس واقعہ کی مذمت کی اور کہاکہ یہ امن و امان کو درہم برہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
مذہبی مقامات پر ایسی اشتعال انگیزیوں کو روکنے حکام کو فوری کارروائی کرنی چاہئے۔ واضح رہے کہ حاجی ملنگ درگاہ مہاراشٹرا کے ضلع تھانے میں ملنگ گاڈ ہل پر واقع ہے اور طویل عرصہ سے تنازعہ میں گھری ہوئی ہے۔
مسلمانوں کا مانناہے کہ یہ حضرت حاجی عبدالرحمن جنہیں‘ حاجی ملنگ کے نام سے جاناجاتا تھا‘ یہ ان کی مزار ہے۔ وہ ایک صوفی سنت تھے اور نالا راجہ کے دور حکومت میں اپنے پیروؤں کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ ان کی تعلیمات جلد ہی مقبول ہوگئیں اور وہ مقامی آبادی کے لیے ایک قابل احترام شخصیت بن گئے تھے۔