جامعہ میں احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف کارروائی پر دانشوروں کا صدائے احتجاج

جمعرات کو جامعہ میں احتجاج کرنے والے کچھ طلباء کو انسٹی ٹیوٹ کے سیکورٹی گارڈز نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے 14 طلبا کو حراست میں لے لیا۔ بعد میں اس نے انہیں چھوڑ دیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر بصیر احمد خان اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق رجسٹرار حسیب احمد نے جامعہ میں احتجاج کرنے والے طلبہ کی حراست کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت کی جامعہ میں طلبہ یونین کو آزادی دی جانی چاہیے۔

جمعرات کو طلباء پر جامعہ انتظامیہ اور پولیس کی کارروائی کے خلاف ایک مشترکہ بیان میں پروفیسر خان اور پروفیسر احمد نے جمعہ کو کہا کہ احتجاج کی آزادی جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ جامعہ انتظامیہ کا طلباء کو احتجاج کرنے پر پابندی لگانے اور ان پر تادیبی کارروائی کی دھمکی دینا طاقت کا غلط استعمال ہے اور اس طرح کی کارروائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

بیان میں جامعہ کی جانب سے پہلے جاری کیے گئے نوٹس پر بھی اعتراض کیا گیا تھا جس میں ادارے کے کیمپس میں کہیں بھی آئینی عہدہ رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج یا نعرے بازی پر پابندی تھی۔ بیان میں کہا گیا کہ جامعہ کی موجودہ صورتحال اس لیے ہے کہ وہاں طلبہ یونین کی اجازت نہیں ہے۔

جمعرات کو جامعہ میں احتجاج کرنے والے کچھ طلباء کو انسٹی ٹیوٹ کے سیکورٹی گارڈز نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے 14 طلبا کو حراست میں لے لیا۔ بعد میں اس نے انہیں چھوڑ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ طلبہ پی ایچ ڈی کرنے والے دو طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی کررہے تھے۔ وہ جامعہ کیمپس میں مظاہروں پر پابندی کے لیے جاری کردہ 2022 کے نوٹس کو واپس لینے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *