"ظہور" اور "قیام" امام زمان (عج) میں فرق/ ظہور سے پہلے ہماری ذمہ داریاں

مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: آج پندرہ شعبان المعظم ہے، جو قطب عالم امکان حضرت مہدی موعود (عجل اللہ فرجہ) کی باسعادت ولادت کا دن ہے۔ اس باسعادت دن کے موقع پر مختلف موضوعات زیربحث آتے ہیں جن میں ایک امام عصر علیہ السلام کا قیام اور آپؑ کی عالمی حکومت ہے۔

حضرت امام مھدی علیہ السلام کے “ظہور” اور “قیام” میں فرق

ظہور ایک ناگہانی اور اچانک ہونے والا واقعہ ہے، جو تدریجا قیام کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ حقیقت میں ظہور قیام سے پہلے ہوتا ہے۔ جب ظہور کا وقت آتا ہے تو حضرت مہدی (عج) خانہ کعبہ کے قریب ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے ابتدائی ساتھیوں کے ساتھ جو قیام کے پیش رو ہوتے ہیں، حرکت کا آغاز کرتے ہیں۔ امام (عج) کی ابتدائی حرکت مدینہ کی طرف ہوگی، جہاں خسف بیداء کا واقعہ پیش آئے گا، جس میں سفیانی کی فوج تباہ ہوجائے گی۔ اس کے بعد حضرت امام مھدی (عج) دس ہزار وفادار ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ کی طرف روانہ ہوں گے۔ آپؑ کا مرکزی نعرہ “یالثارات الحسین” ہوگا۔ امام زمان (عج) کا طریقہ کار اور راستہ ان کے جد حضرت امام حسین (ع) کے طریقے کے مطابق ہوگا۔

حضرت امام مہدی (عج) کوفہ میں مستقر ہوں گے اور پھر ان کا اگلا سفر بیت المقدس کی طرف ہوگا۔ بیت المقدس میں حضرت عیسیؑ امام مہدی (عج) کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ وہاں امام مھدی (عج) اپنے ساتھیوں کو یہود و نصاری کے خلاف اسلامی اصولوں کے دفاع کے لیے مامور کریں گے۔ اس کے بعد امام مھدی (عج) دوبارہ کوفہ واپس آئیں گے۔

امام مھدی (عج) کوفہ میں مستقل طور پر قیام کریں گے اور لوگوں کو اسلامی تعلیمات اور الہی احکامات پر عمل کی دعوت دیں گے۔ اس مرحلے میں امام مھدی (عج) کسی جنگ کا آغاز نہیں کریں گے بلکہ ان کا مقصد لوگوں کو عدل و انصاف کے راستے پر لانا ہوگا۔ امام مھدی (عج) دنیا کو ایسا راستہ پیش کریں گے جو انسانیت کو عدل، امن اور روحانی ترقی کی طرف لے جائے گا۔

ان کا قیام دو بنیادی مقاصد کے لیے ہوگا: 1. عدل و انصاف کا نفاذ 2. معاشرے میں روحانی و اخلاقی ترقی

دوران غیبت میں مسلمانوں کا کردار اور ذمہ داری

دوران غیبت مسلمانوں کی ذمہ داری دو پہلوؤں پر مشتمل ہے: 1. فردی (ذاتی) پہلو 2. اجتماعی (معاشرتی) پہلو

1. فردی ذمہ داری

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیبت کے دوران واجبات پر سختی سے عمل کرے اور حرام امور سے بچے؛ اپنی دینی ذمہ داریوں کو پہچانے اور انہیں پورا کرے اور امام مھدی (عج) کے ظہور کے لیے اخلاقی اور روحانی طور پر خود کو تیار کرے۔

2. اجتماعی ذمہ داری

اجتماعی ذمہ داری یہ ہے کہ مسلمان ظہور کی تیاری کے لیے سماجی اصلاحات میں کردار ادا کریں؛ عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ظہور کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل ضروری ہے۔ اس کے علاوہ امامت اور غیبت پر مضبوط ایمان رکھیں اور امام مھدی (عج) کے ظہور پر یقین رکھیں۔ منتظرین کی حیثیت سے اپنے ارد گرد ایسی فضا بنانا بھی ہماری ذمہ داری ہے جو امام مھدی (عج) کی عالمی حکومت کے قیام میں مددگار ہو۔

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امام زمان (عج) کے بارے میں نظریاتی فرق

مسلمانوں کے درمیان کئی مشترکہ عقائد موجود ہیں، جیسے قرآن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، قبلہ اور خانہ کعبہ یہاں تک کہ امامت کے تصور میں بھی ایک قسم کی مماثلت پائی جاتی ہے، کیونکہ شیعہ 12 اماموں پر ایمان رکھتے ہیں جبکہ اہل سنت بھی 12 خلفاء کا ذکر کرتے ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت امام مہدی (عج) کو بحیثیت منجی آخرالزمان تسلیم کرتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مہدی (عج) دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور ظلم و ستم کا خاتمہ کریں گے۔

شیعہ امام مہدی (عج) کو بارہویں امام مانتے ہیں جو امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق حضرت امام مہدی (عج) 255 ہجری میں پیدا ہوئے اور اللہ کے حکم سے غیبت میں چلے گئے۔ وہ آخرالزمان میں ظہور کریں گے اور ایک عالمی حکومت قائم کریں گے۔

اہل سنت میں اس بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ علماء کا ماننا ہے کہ امام مہدی (عج) ابھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے۔ کچھ اہل سنت علماء کا یہ بھی نظریہ ہے کہ امام مہدی (عج) پیدا ہو چکے ہیں لیکن وہ مخفی ہیں۔ اہل سنت امام مہدی (عج) کو ایک نیک خلیفہ اور عادل حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو بحال کریں گے۔

ان اختلافات کے قطع نظر اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) نہ صرف شیعوں کے امام ہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے نجات دہندہ ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ امام مہدی (عج) عدل و انصاف پر مبنی ایک متحدہ اور منصفانہ عالمی نظام قائم کریں گے۔

حضرت امام مهدی (عج) کے ظہور کے لیے کس طرح معنوی، سماجی اور سیاسی آمادگی کی جاسکتی ہے؟

امام مھدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے تیاری کے سلسلے میں پہلا قدم حضرت امام مهدی (عج) کی شناخت ہے۔ ہمیں حضرت امام مهدی (ع) کو علمی اور عملی دونوں لحاظ سے پہچاننا ہوگا اور ان سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی فکری اور اعتقادی سطح کو بلند کرنا ہوگا۔ اپنے عقائد اور نظریات میں تبدیلی لا کر ہمیں حق اور باطل کی پہچان حاصل کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہمیں اپنی اخلاقی اور عملی تیاری کو بھی مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہم حضرت امام مهدی (عج) کے یاروں میں شامل ہوسکیں۔ اس کے لیے اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

معنوی اور سماجی آمادگی کے ساتھ ہمیں اپنے معاشرتی اور روحانی وسائل کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہم امامؑ کے ظہور کے لیے مناسب ماحول تیار کرسکیں۔ ہمیں اپنی اخلاقی اور دینی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ سیاسی تیاری کے لیے ہمیں عالمی حکومت کے سیاسی پہلوؤں کو سمجھنا ہوگا، ہمیں فتنوں سے بچنا اور عدل کو فروغ دینا ہوگا۔

ثقافتی اور روحانی آمادگی کے لیے ہمیں امام کی محبت اپنے دلوں میں بڑھانی ہوگی اور خود کو اللہ اور اس کے ولی کے ساتھ ہماہنگ کرنا ہوگا۔ حضرت امام مهدی (عج) کا ارشاد ہے کہ اگر شیعہ اپنے عہد و پیمان پر وفادار رہیں تو ان کی ثقافتی آمادگی مزید مضبوط ہوگی۔ ہمیں ایسے مددگاروں کی تربیت کرنی ہوگی جو اللہ کے دوست ہوں اور خدا بھی اس کو دوست رکھے۔ ان کا کردار ایسا ہو جس سے مومنین خوش اور کافرین ناراض ہوجائیں۔ روحانی اور نفسیاتی تیاری کے لیے ہمیں امید بڑھانی ہوگی اور ناامیدی سے بچنا ضروری ہے۔

اقتصادی اور دفاعی آمادگی بھی ضروری ہے تاکہ ہم حضرت امام مهدی (عج) کے ظہور کے وقت ان کی حمایت کے لیے تیار ہوں۔ ہمیں عدل کے مطابق معاشی نظام کو بڑھانا ہوگا اور دفاعی تیاری بھی کرنا ہوگی تاکہ ہم ظہور کے بعد ایک مضبوط اور عادل حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ان تمام تیاریوں کا مقصد حضرت امام مهدی (عج) کے ظہور کے لیے ایک مضبوط اور عادلانہ عالمی ماحول کی تیاری ہے تاکہ ان کی حکومت کا قیام عدل و انصاف کے ساتھ ہوسکے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *