رہبر معظم انقلاب نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین اور مظلوموں کی حمایت کی ہے

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی لیڈرشپ کونسل کے سربراہ محمد اسماعیل درویش نے سنیچر 8 فروری 2025 کو ایک وفد کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ جس میں فلسطین کے موجودہ حالات اور خطے کے مسائل کے سلسلے میں اہم گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد حماس کی لیڈرشپ کونسل کے سربراہ نے رہبر انقلاب کی ویب سائٹ khamenei.ir کو خصوصی انٹرویو دیا جس کے اہم حصے پیش خدمت ہیں۔     
سوال: سب سے پہلے تو میں آپ، فلسطین کی عظیم قوم اور اس کی شجاع مزاحمت کی خدمت میں غاصب صیہونی حکومت سے ٹکراؤ میں الہی فتح کے عملی جامہ پہننے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اور آپ کے ہمراہ آئے وفد نے امام خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کن باتوں پر تبادلۂ خیال ہوا اور اس حساس موقع پر اور صیہونی حکومت پر فتح کے بعد اس ملاقات کی اہمیت کا آپ کس طرح جائزہ لیتے ہیں۔

جواب: یہ ملاقات، مسئلہ فلسطین سے متعلق بنیادی امور پر رہبر معظم سے گفتگو کے لیے ایک بڑا موقع تھی، وہ بھی ایسے وقت جب فلسطینی مزاحمت نے ایک بڑی فتح حاصل کی ہے، دشمن کی ہیبت کو مٹی میں ملا دیا ہے اور اسے اس کی اوقات سمجھا دی ہے۔ دشمن اس جنگ میں اپنا کوئي بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ نہ تو وہ حماس کو ختم کر سکا، نہ اپنے قیدیوں کو رہا کرا سکا اور نہ ہی غزہ میں باقی رہ سکا۔ آخر میں وہ شکست تسلیم کر کے پسپائي پر مجبور ہو گيا اور بے گھر ہونے والے افراد اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ غزہ سر بلند اور مضبوط باقی رہا، فلسطین سربلند و مضبوط باقی رہا۔ رہبر معظم سے ملاقات، خطے میں مزاحمت کی تقویت کے لیے ایک موقع تھی کیونکہ انھوں نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین اور مظلوموں کی حمایت کی ہے۔ انھوں نے اس ملاقات میں اپنی جانب سے فلسطینی قوم کی بھرپور حمایت اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور اسی طرح فلسطینی اور علاقائي مزاحمت کی حمایت پر زور دیا۔ اس ملاقات سے ہمیں بہت خوشی ہوئي ہے اور رہبر معظم نے ہمیشہ اور تمام مواقع پر ہمیں یہ یقین دہانی کرائي ہے کہ وہ اس مزاحمت کے سب سے بڑے حامی ہیں اور اللہ کے حکم سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ، ان شاء اللہ فتحیاب ہوں گے۔

سوال: طوفان الاقصیٰ آپریشن کو قریب ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں۔ ہم نے اس مدت میں دیکھا کہ مزاحمت کو بہت سارے چیلنجوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا؟ فلسطینی قوم اور مزاحمت نے اسلام کی راہ میں لگ بھگ پچاس ہزار شہیدوں اور لاکھوں زخمیوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دشمن نے عوام کے گھروں کو مسمار اور مزاحمت کے رہنماؤں اور اس کے ہیروز کو قتل کیا۔ ان سب باتوں کے پیش نظر جنگ بندی کے بعد آپ غزہ کے لوگوں کے جذبے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فتح کے بعد دنیا اور امت مسلمہ کے لیے غزہ کے لوگوں کا پیغام کیا ہے؟

جواب: سب سے پہلے تو ہم تمام شہید کمانڈروں اور اپنی قوم کے شہیدوں اور زخمیوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور زخمیوں کے لیے شفاء کی دعا کرتے ہیں۔ ہماری قوم ایثار و قربانی کی عادی ہے۔ ہماری عظیم قوم کو اپنے اہداف اور اپنی سرزمین اور وطن کی آزادی کی راہ میں قربانی دینے اور فداکاری کرنے کی عادت ہے۔ غزہ میں فلسطینی قوم کا جذبہ بہت عالی ہے اور ان لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ انھوں نے صیہونی دشمن کے مقابلے میں اور تمام مغربی طاقتوں کے مقابلے میں جو ہم پر حملے کی حمایت کر رہی تھیں، ایک بڑی فتح حاصل کی ہے۔ ہم پہلے ہی دن یعنی 7 اکتوبر کو فتحیاب ہو گئے اور ہم نے پندرہ مہینوں تک مزاحمت کی۔ کہا جانا چاہیے کہ اس فتح میں فلسطینی قوم کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس فتح کو حاصل کرنے میں سب سے پہلے فلسطینی قوم اور پھر مزاحمت حصہ دار ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی قوم اور مزاحمت، دشمن کی ہیبت کو توڑنے کے لیے متحد ہو گئے اور انھوں نے اللہ کے حکم سے دشمن کی ہیبت اور طاقت کو مٹی میں ملا دیا۔ دنیا کے لیے فلسطینی قوم کا پیغام یہ ہے کہ مزاحمت فتحیاب ہوگي اور اللہ کے حکم سے فلسطینی قوم، بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کو آزاد کرائے گي۔

سوال: غزہ میں مزاحمت کی فتح کا سب سے اہم سبب کیا ہے؟ ہم نے دیکھا کہ مزاحمت نے دشمن کے اہداف پورے نہیں ہونے دیے، وہی اہداف جن کا دشمن نے جنگ کی شروعات میں اعلان کیا تھا۔ آخر میں یہ مزاحمت محاذ ہی تھا جو اپنی شرطیں دشمن پر مسلط کرنے میں کامیاب رہا۔ دشمن کو ایسی شکست ہوئي کہ جس کی تلافی اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ آپ کے خیال میں اس موضوع کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: فتح کا اصل سبب، فلسطینی قوم کا ایمان اور اس کا ٹھوس عقیدہ ہے اور اسی وجہ سے یعنی اللہ پر ایمان اور فتح کے یقین کے سبب اسے فتح حاصل ہوئي ہے۔ دوسرا سبب مزاحمتی فورسز اور مزاحمت کی شجاع بریگيڈز کی تیاری اور جنگي آلات کی آمادگي تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی سرزمین یعنی غزہ میں دشمن کو شکست دینے میں کامیابی ہوئيں۔ تیسرا سبب فلسطینی قوم کی غیر معمولی اور معجزاتی استقامت ہے۔ نسل کشی اور تباہی کے دوران پندرہ مہنیوں تک استقامت، اس قوم کے لیے اللہ کی جانب سے ایک معجزہ ہے۔

سوال: حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے مستقبل اور غزہ میں رہنے والوں کی جبری ہجرت کے بارے میں کچھ وہم آمیز بات کر رہے ہیں۔ کیا یہ نئي بات ہے؟ ہم نے اس سے پہلے بھی اس طرح کے منصوبوں کا مشاہدہ کیا ہے اور ان کا انجام بھی دیکھا ہے۔ اس بیان کے جواب میں ہم نے دیکھا کہ غزہ کے لوگوں نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور شمالی غزہ لوٹ آئے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ فلسطینی قوم کو ایک علاقے سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور مزاحمت، صیہونیوں کو پسپائي پر مجبور کر دیتی ہے اور پھر فلسطینی قوم اس علاقے میں واپس لوٹ آتی ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے خاص طور اس لیے کہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نے غرب اردن میں پچھلی شکستوں کے باوجود، کچھ نئے آپریشن شروع کیے ہیں؟

جواب: ٹرمپ اور ان کی حکومت کا جواب، وہ کام ہے جو فلسطینی قوم نے ایک دن میں انجام دیا۔ انھوں نے ایک دن میں جبری مہاجرت کی بات کی تھی، ایک دن میں یا 48 گھنٹوں میں پانچ لاکھ فلسطینی اپنی سرزمین پر واپس لوٹ آئے؛ ایسی جگہ پر جہاں نہ کوئی گھر تھا، نہ کوئی خیمہ تھا اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ۔ اس کے باوجود، وہ لوگ ایسے عالم میں جب ان کے پاس کچھ نہیں تھا، زمین پر بیٹھ گئے اور زیتون کے درختوں کی طرح اپنی سرزمین پر جمے رہے۔ یہ ٹرمپ اور ان کے منصوبوں کا سب سے بڑا جواب تھا، ان کے منصوبے اور پروجیکٹس فلسطین کے عوام اور فلسطینی مزاحمت کی استقامت کے سبب اللہ کے حکم سے نقش بر آب ہو جائيں گے۔

سوال: آپ کے خيال میں صیہونی، غرب اردن میں کس چیز کے چکّر میں ہیں؟

جواب: اس وقت غرب اردن پر وسیع پیمانے پر حملے ہو رہے ہیں اور اسے جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد، غرب اردن میں مزاحمت کو ختم کرنا ہے لیکن ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوگا۔ غرب اردن میں بھی، بالکل غزہ کی طرح ہی مزاحمت کی جڑیں مضبوط ہیں۔ صیہونی، کبھی بھی غرب اردن میں مزاحمتی محاذ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور اللہ کے حکم سے وہاں مزاحمت جاری رہے گي اور مضبوطی کے ساتھ اس میں وسعت آئے گي۔ ان شاء اللہ مزاحمت، غرب اردن کے پناہ گزیں کیمپوں اور شہروں میں بھی صیہونیوں کی ہیبت کو مٹی میں ملا دے گي۔

سوال: رہبر انقلاب نے اپنے ایک خطاب کے دوران اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یحییٰ سنوار جیسے عظیم مجاہدوں نے خطے کا مستقبل بدل دیا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، خطے کے حالات صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کی سمت بڑھ رہے تھے۔ اب جنگ بندی کے بعد پھر تعلقات معمول پر لانے کی باتیں سنائي دے رہی ہیں۔ آپ کے خیال میں ان حالات میں خطے کی اقوام اور حکومتوں کو صیہونی دشمن سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کے سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: طوفان الاقصیٰ، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں گلے میں کانٹے کی طرح بن گيا اور جب سات اکتوبر کا آپریشن ہوا تو صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کی ریل گاڑی، پوری طرح سے رگ گئي۔ یہ ریل گاڑی سات اکتوبر کو روک دی گئي تھی جو اب بھی رکی ہوئي ہے اور خداوند عالم کے حکم سے امت مسلمہ، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کی ریل گاڑی کے خلاف مزاحمت میں کامیاب ہوگي، جیسا کہ وہ اس سے پہلے بھی کامیاب ہوئي تھی۔ غرب اردن میں مزاحمت کا ابھرنا اور غزہ کے لوگوں کی استقامت، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو روکنے کا سب سے بڑا سبب ہے اور اللہ کے حکم سے موجودہ امریکی صدر اپنے کسی بھی منصوبے اور پروجیکٹ پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔

سوال: مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی شہادت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ مزاحمت نے شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار، شہید نصر اللہ اور ان سے پہلے شہید شیخ احمد یاسین اور شہید عیاش جیسے بڑے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مزاحمت کس طرح ان شہیدوں کی راہ جاری رکھے گي؟

جواب: اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مزاحمت کی فتح کا ایک بڑا اہم سبب، اس کے رہبروں اور شہیدوں کی فداکاری ہے۔ آج ان کے خون کی برکتیں ہمارے شامل حال ہیں۔ مزاحمت نے بڑے بڑے رہنماؤں اور کمانڈروں کا نذرانہ پیش کیا ہے، جیسے: شہید ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار، شہید نصر اللہ، شہید صفی الدین، شہید صالح العاروری، شہید محمد ضیف اور شہید مروان عیسیٰ۔ یہ سارے وہ رہنما اور کمانڈر ہیں جن کی فداکاریاں یکے بعد دیگرے جاری ہیں اور اللہ کے حکم سے فتح حاصل ہوئی۔ ان شہیدوں کے خون کی برکت تھی جس نے ہمارے لیے فتح کو عملی جامہ پہنایا۔ جب ہمارے رہنما شہید ہوتے ہیں تو مزاحمت کی نہج پر باقی رہنے اور فتح کے حصول اور اپنی سرزمین کی آزادی تک ان کی راہ جاری رکھنے کے لیے ہمارا جذبہ اور ہمارا عزم مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔ ابو ابراہیم سنوار یہ شعر پڑھنے کے بعد شہید ہو گئے:

سرخ آزادی کے لیے ایک دروازہ ہے         جسے خون بھرے ہاتھوں سے کھٹکھٹایا جاتا ہے

ممالک قربانی کے بغیر تعمیر نہیں ہوتے ہیں       اور حق اور حقوق بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتے

بنابریں شہداء اور قربانیاں، سرزمینوں کو تعمیر کرتی اور وطنوں کو غاصبانہ قبضے سے آزاد کراتی ہیں۔

سوال: شہید محمد ضیف طوفان الاقصیٰ آپریشن کے منصوبہ ساز تھے۔ وہ ایک بڑے مجاہد تھے اور دوسرے بڑے کمانڈروں میں ان کی مثال کم ہی دکھائي دیتی تھی۔ کیا آپ کے ذہن میں ان کی کوئي یاد ہے؟ آپ شہید ضیف کی شخصیت کو کس طرح بیان کریں گے جس نے انھیں مزاحمت میں ایک افسانوی کمانڈر بنا دیا تھا؟

جواب: اس بات میں کوئي شک نہیں کہ مزاحمت کی کمان میں شہید ابو خالد الضیف کی شخصیت ایک غیر معمولی اور بے نظیر شخصیت تھی۔ تیس سال سے دشمن ان کے تعاقب میں تھا اور اس دوران وہ انھیں قتل کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ شہید ضیف پر سات بار بڑے بڑے قاتلانہ حملے ہوئے لیکن دشمن انھیں شہید نہیں کر سکا اور ایک سخت جنگ میں ان کی شہادت سے ان کی شخصیت پر کوئي آنچ نہیں آتی۔ یہ جنگ، فلسطینی قوم کے لیے بیسویں صدی کی سب سے بڑی جنگ تھی۔ ابو خالد الضیف نے کچھ نہیں کھویا کیونکہ وہ طوفان الاقصیٰ کے شہیدوں کے سردار اور ایسے لیڈر بن گئے جس نے فلسطینی قوم اور امت مسلمہ کو فتح کا یہ تحفہ دیا اور اس کے بعد شہید ہو گئے۔ شہادت، ان کے لیے سب سے اچھا انجام تھا۔ میں نے انھیں جب آخری بار دیکھا تھا تو وہ بھرپور جوان تھے۔ وہ کئي سال سے سات اکتوبر جیسے آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ ایسے ہی کسی آپریشن کی بات کرتے تھے جیسا سات اکتوبر کو ہوا۔ یہ چیز اس ملاقات کے کئي سال بعد ہوئی۔ ابو خالد الضیف اور مزاحمت کے دیگر کمانڈروں میں یہ جو عزم تھا، اس نے فتح کو عملی جامہ پہنایا۔ ہم ان شہیدوں کے بعد بھی اپنے وطن کی آزادی کی راہ پر چلتے رہیں گے اور ان شاء اللہ ہم سبھی مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کریں گے، ان سبھی بھائيوں کے ساتھ جنھوں نے ہماری حمایت کی، اسلامی جمہوریہ سے لے کر لبنان، یمن اور عراق میں مزاحمت کے تمام بازؤوں تک۔ اللہ کے حکم سے ہم سبھی مل کر آزادی اور حتمی فتح کی سمت آگے بڑھیں گے۔

سوال: آپ نے مزاحمت کے محاذوں اور طوفان الاقصیٰ آپریشن میں اتحاد کی طرف اشارہ کیا جو صیہونی حکومت کے ساتھ ٹکراؤ میں ابھر کر سامنے آيا۔ غزہ میں مزاحمت کو جو الہی فتح حاصل ہوئي، اس میں اس اتحاد کا کیا اثر تھا؟

جواب: بلاشبہ طوفان الاقصیٰ کی جنگ نے مزاحمت کے تمام بازؤوں میں ایک حقیقی جنگي اتحاد پیدا کر دیا جس طرح سے اس نے عرب دنیا، عالم اسلام اور دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کے درمیان ایک معنوی اور جذباتی اتحاد پیدا کر دیا۔ ان شاء اللہ مستقبل میں، خطے میں مزاحمت کے حامیوں کی کوششوں کی برکت سے، جن میں سر فہرست، رہبر انقلاب اسلامی کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران ہے، یہ اتحاد اللہ کے حکم سے زیادہ نمایاں ہوگا اور اس میں زیادہ وسعت آئے گي۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *