پنجاب میں عآپ کی حکومت ہےاور پارٹی کے پاس 13 پارلیمانی نشستیں ہیں۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ الیکشن میں اس شکست کے بعد اروند کیجریوال کے سامنے کیا چیلنجز ہیں؟
![<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>](https://media.assettype.com/qaumiawaz%2F2025-02-09%2F6w2y4yyo%2FArvind-Kejriwal-Delhi-Result.jpg?rect=0%2C0%2C1200%2C675&auto=format%2Ccompress&fmt=webp)
![<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>](https://media.assettype.com/qaumiawaz%2F2025-02-09%2F6w2y4yyo%2FArvind-Kejriwal-Delhi-Result.jpg?rect=0%2C0%2C1200%2C675&auto=format%2Ccompress&fmt=webp&w=1200)
تصویر بشکریہ آئی اے این ایس
اروند کیجریوال کو دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اوراس الیکشن میں وہ بی جے پی کے پرویش ورما سے 4 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ اس شکست کے بعد کیجریوال کا کیا ہوگا؟ان کے پاس اب کوئی آئینی عہدہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ سال 2028 سے پہلے راجیہ سبھا کے رکن بن سکتے ہیں۔
پنجاب میں سال 2028 میں راجیہ سبھا کے لئے انتخابات ہوں گے اور وہ سب سے جلدی وہاں سے ہی راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کیجریوال کو اب صرف عام آدمی پارٹی کا کنوینر ہی رہنا ہوگا۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ کب تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔ ای ڈی نے شراب گھوٹالہ میں پوری عام آدمی پارٹی پر الزام لگایا ہے اور اگر عدالت میں یہ پارٹی قصوروار ثابت ہو جاتی ہے تو یہ پارٹی بھی ختم ہو جائے گی، اور کیجریوال کنوینر کا عہدہ بھی نہیں رہے گا۔
ان نتائج نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اب کیجریوال اس شیش محل میں واپس نہیں جائیں گے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے۔ درحقیقت یہ شیش محل کجریوال کے لیے بہت خراب ثابت ہوا اور وہ اس میں نہیں رہ سکےتھے۔ پہلے انہیں جیل جانا پڑا اور اب وہ الیکشن ہار گئے ہیں۔
ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ جس رہنما کو بی جے پی دہلی کا وزیر اعلیٰ بناتی ہے کیا وہ اس شیش محل میں جائے گا؟ اور اب اس شیش محل کا کیا بنے گا؟ کیا اس کی بھی تحقیقات ہوگی؟ گزشتہ سال کیجریوال نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ اب وہ حکومت کی قیادت اسی وقت کریں گے جب عوام انہیں انتخابات میں ووٹ دیں گے اور انہیں شراب گھوٹالہ کے الزامات سے آزاد کریں گے۔
کیجریوال کہتے تھے کہ اگر عوام انہیں جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بی جے پی کو ووٹ دے سکتے ہیں اور آج ایسا ہی ہوا اور لوگوں نے کیجریوال کے خلاف کرپشن کے الزامات پر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں 70 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا، جن میں سے 48 یعنی 69 فیصد امیدوار آج الیکشن ہار چکے ہیں، اور ان میں کئی بڑے لیڈروں کے نام بھی شامل ہیں۔
سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال نئی دہلی سیٹ سے 4 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ منیش سسودیا جنگپورہ سیٹ سے 675 ووٹوں سے ہار گئے۔ سوربھ بھردواج گریٹر کیلاش سے 3 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔ مالویہ نگر سے سومناتھ بھارتی 2100 ووٹوں سے ہارے اور ستیندر جین شکور بستی سے 21 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ ان میں کیجریوال، منیش سسودیا اور ستیندر جین کچھ عرصہ پہلے تک جیل میں تھے اور انہوں نےبعد میں ضمانت پر باہر آکر یہ انتخاب لڑا۔
دہلی کے انتخابی نتائج نے عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وہ دہلی جہاں سے کیجریوال نے 2013 میں سیاست میں حیران کن سفر شروع کیا تھا اسی دہلی نے کیجریوال کے کرشمے کی کہانی کا خاتمہ کر دیا۔ بی جے پی نے کیجریوال کے ہاتھ سے دہلی کا اقتدار چھین لیا۔ یہ شکست کیجریوال اور ان کی پارٹی کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے کیونکہ نہ تو پارٹی کو اکثریت ملی اور نہ ہی کیجریوال اور ان کے بڑے لیڈر الیکشن جیت سکے۔
دس سال تک دہلی میں اقتدار عام آدمی پارٹی کے ہاتھ میں رہا۔ 2015 کے انتخابات ہوں یا 2020 کے انتخابات۔ دہلی نے کیجریوال کے چہرے پر پورے دل سے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا، لیکن 2025 کے اسمبلی انتخابات میں نہ تو کیجریوال کے چہرے کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی مفت اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں نے ووٹ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عام آدمی پارٹی جس نے 2020 کے انتخابات میں 70 میں سے 62 سیٹیں حاصل کی تھیں، 22 سیٹوں پر رہ گئیں۔
عام آدمی پارٹی کو 40 سیٹوں کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اگر ووٹ شیئر کی بات کریں تو 2020 کے اسمبلی انتخابات میں 54 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن 2025 کے اسمبلی انتخابات میں کیجریوال کی پارٹی کا ووٹ شیئر گھٹ کر 44 فیصد پر آ گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ عام آدمی پارٹی نے 10 فیصد ووٹ کھوئے۔ ووٹ شیئر میں یہ کمی اروند کیجریوال کی شکست کی سب سے بڑی وجہ بنی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی میں شکست نے اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ آنے والا وقت کیجریوال کے لیے ذاتی طور پر بہت مشکل ہونے والا ہے، کیونکہ شراب گھوٹالہ سے لے کر شیش محل تک کے مسائل انھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ دہلی میں جیت سے پرجوش بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے یہاں تک پیشین گوئی کی کہ کیجریوال دوبارہ جیل جائیں گے۔
دہلی کے اس الیکشن میں کیجریوال کا برانڈ تباہ ہو گیا ہے۔ ہاں، وہ چہرہ جو بدعنوانی کے خلاف ابھرا تھا، جس نے صاف ستھری حکمرانی اور انتظامیہ کی سمجھ بوجھ کا وعدہ کیا تھا، جسے سیاست میں بی جے پی اور کانگریس کا متبادل سمجھا جاتا تھا، لیکن مرکزی ایجنسیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد کیجریوال کو بہت کچھ کھونا پڑا، اور اب دہلی کے نتائج نے ‘برانڈ کیجریوال’ کو بے رنگ کر دیا ہے۔
کیجریوال نے گوا، گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور کچھ دوسری ریاستوں میں پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن مکمل عمارت کہیں نہیں بنی۔ کئی مقامات پر بنیاد کی اینٹیں اور پتھر بکھر گئے۔ اب اگلے 5 سال تک کیجریوال دہلی میں اپنا وجود دوبارہ حاصل کرنے پر توجہ دینے پر مجبور ہیں لیکن کیا وہ ایسا کر پائیں گے۔