ویگنر کے سربراہ پریگوزن نے وہی پایا، جس کے وہ مستحق تھے

[]

کرس اسٹیونسن

یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ روس نے کرائے کی فوج (ویگنر) کے سربراہ ایوگینی پریگوزن کو مردہ قرار دے دیا ہے۔
ماسکو کے خلاف ویگنر گروپ نے جس طرح کی بغاوت کی کوشش کی، اس کے پیش نظر یہ گمان موجود تھا کہ ان کے دنیا چھوڑنے کا وقت شاید آن پہنچا ہے۔ جب بات قوم پر آہنی گرفت رکھنے والے ولادی میر پوتن پر آ جائے، جیسا کہ کہاوت ہے کہ ’اگر آپ بادشاہ کے تخت پر ہاتھ ڈالیں‘ تو آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لیکن جیسا کہ پریگوزن کے خاتمے کے اور اس شرمندگی کے بارے میں قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں، جو پوتن برداشت نہیں کر سکتے تھے، ان خوفناک کاموں کو یاد کرنا آسان ہو سکتا ہے، جو پریگوزن کے کرائے کے فوجیوں نے انجام دیے تھے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پریگوزن اسی انجام کے مستحق تھے اور تمام نشانیاں اسی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔
یہ پوتن کی یوکرین پر یلغار ہی تھی، جس کے بعد پریگوزن حقیقی طور پر دنیا کے سامنے عیاں ہوئے۔ یہ گروپ مشرقی شہر باخموت کے ارد گرد جنگ کی سب سے خونریز لڑائی میں سب سے آگے تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ پر قبضے کی جنگ تھی جس نے کیف اور ماسکو دونوں کے لیے علامتی اہمیت حاصل کر لی ہے اور اس نے ہی ماسکو میں بیٹھی فوجی اشرافیہ کو اس کا نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ اس نے پریگوزن کو دشمن بنا دیا ہو گا، یہاں تک کہ اگر ویگنر کی جانب سے کی گئی بربریت کو عوام کی نظر میں ان کے کھاتے میں ڈالنے سے بھی وہ ہوشیار ہو جاتے۔
یہ واضح ہے کہ ان کی قیادت میں لڑنے والے فوجیوں نے مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ میرے ساتھی کم سین گپتا نے گذشتہ ماہ ہی میدان جنگ میں لڑنے والے ویگنر کے ایک سابق جنگجو کا انٹرویو کیا۔ اگرچہ جنگجو نے اس بارے میں آزادانہ طور پر بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم انہوں نے بتایا: ’وہاں کچھ بہت بری چیزیں ہوئیں۔‘
سرگئے کہتے ہیں: ’میں نے بری چیزیں دیکھی ہیں۔ یہ محض یک طرفہ نہیں تھا۔ یوکرینی فوجیوں نے بھی قیدیوں کو گولیوں سے نشانہ بنایا، لیکن اس کے باوجود یوکرینی شہریوں کے خلاف ایسی کارروائیاں ہوئیں جو نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ یہ ایک بری جنگ تھی۔ دوسرے جنگجوؤں نے بھی جنگی قیدیوں کو گولی مارنے اور یوکرین کے فوجیوں کے گڑھ میں ’دستی بم پھینکنے‘ کے بارے میں بات کی۔‘ ایسا صرف فرنٹ لائن پر نہیں ہوا۔ یوکرین نے روسی افواج پر بوچا اور دارالحکومت کیف سے باہر کے ان قصبوں اور دیہات کے شہریوں کے خلاف خوفناک مظالم کا الزام لگایا ہے، جو یوکرین کی جانب سے بازیافت کروانے سے قبل حملے کے ابتدائی ہفتوں میں روسی فوجیوں کے قبضے میں تھے۔ کم سین گپتا اور ایک اور ساتھی بیل ٹریو نے ان لاشوں کو دیکھا ہے جو روس کے علاقے سے انخلا کے تناظر میں پیچھے چھوڑی دی گئی تھیں۔ کیف بضد ہے کہ ان مظالم کو جنگی جرائم کے طور پر چلایا جائے گا۔ یہ روسی جنگی جرائم کے حوالے سے شواہد کا حصہ ہے اور ویگنر کو بھی اس کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کرائے کے فوجیوں کا یہ گروپ یوکرین میں اس وقت سے ملوث ہے جب روس نے 2014 میں کرائمیا پر غیر قانونی قبضہ کر لیا تھا اور ان کی روا رکھی گئی بربریت کی داستانیں طویل اور بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ پریگوزن کی افواج شام کی خانہ جنگی میں بھی شامل رہی ہیں اور کئی افریقی ریاستوں میں بھی ان کی موجودگی ہے۔وہ جہاں بھی رہے، خون ریزی ان کا تعاقب کرتی رہی۔ مئی میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں افریقی ملک مالی میں ہونے والے ایک واقعے کی تفصیل دی گئی ہے جو اقوام متحدہ کے عملے کے کئی مہینوں کے دوران کیے گئے ایک وسیع فیکٹ فائنڈنگ مشن کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔ اس میں ویگنر سمیت غیر ملکی کرائے کے فوجیوں پر الزام لگایا گیا ہے۔ ویگنر افواج مارچ 2022 میں مورا گاؤں میں سینکڑوں لوگوں کو ذبح کرنے میں ملوث تھیں۔ اس قتل عام میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ فوجیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے لیکن زیادہ عام شہریوں کی اموات تھیں۔ یہ الزامات یوکرین سے باہر ویگنر کے ساتھ منسلک بدترین ظلم کی صرف ایک داستان کو بیان کریں گے۔ تشدد ویگنر کی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پریگوزن نے ماسکو پر بھی یلغار کی، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی واقعی یہ سب جانتے تھے، تو ایک پرتشدد انجام ان کا مقدر ٹھہرا۔ دہشت نے ان کے اور ان کے کرائے کے فوجیوں دونوں کا پیچھا کیا اور ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *