[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ساما کے حوالے سے بتایا ہے کہ صہیونی کان چینل نے لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے خطاب کے کچھ حصے براہ راست نشر کئے، حسن نصراللہ نے زور دے کر کہا کہ لبنان کی سرزمین پر کوئی بھی دہشت گرد حملہ جنگ کا باعث بنے گا۔
عبرانی زبان کے اخبار “میکور رشون” نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے: نصر اللہ اسرائیل کی کمزوری سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ سب کچھ جانتے ہیں جو ہم نے گزشتہ دنوں کہا ہے۔ جو شخص قتل کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے وہ بلند آواز میں اس کارروائی کا اعلان نہیں کرتا بلکہ اسے عملا کر دکھاتا ہے۔ آج نصراللہ کی تقریر کہ جس میں کسی بھی دہشت گردانہ حملے کا جواب دینے کی دھمکی کے بعد لبنان میں حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ صالح العروری کو مکمل استثنیٰ دے دیا گیا۔
صیہونی اخبار یدیعوت احارونوت کی سائٹ نے بھی لکھا: سید حسن نصر اللہ صالح العروری کی حمایت کرتے ہیں۔
صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل 13 نے بھی خبر دی ہے: لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی اسرائیل کو دھمکیاں جاری ہیں۔
اس نیٹ ورک نے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بارے میں سید حسن نصر اللہ کے الفاظ اور ان کے ایران پر مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں کی حمایت کرنے کے الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: یہ ایران کا کام نہیں ہے بلکہ فلسطینی عوام کا کام ہے۔ ان کاروائیوں کے بارے میں ہمیں یہ کہنا ضروری ہے کہ مغربی کنارے میں اس طرح کی کارروائی کا ماسٹر مائنڈ صالح العروری ہے۔
لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کل رات اپنے خطاب میں تاکید کی: کیا قتل و غارت گری مزاحمت کی قوت کو کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ یہی نہیں بلکہ انہوں نے جدوجہد کے میدان میں مزید موجودگی اور فتح کی امید میں اضافہ کیا۔ یہ بات ہمارے خطے کے تمام مزاحمتی مجاہدین پر صدق آتی ہے۔ یہ دھمکیاں مزاحمت کے پیچھے ہٹنے کا سبب نہیں بنتی ہیں۔
دھمکی اور اس پر عمل درآمد نہ تو مزاحمت کو کمزور کرے گا بلکہ اس کی قوت ارادی میں اضافہ کرے گا۔ کوئی بھی دہشت گردی جو لبنان میں ہوتی ہے اور لبنانی، فلسطینی، شامی، ایرانی یا دیگر ممالک کے شہریوں کو نشانہ بناتی ہے، بلاشبہ اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
ہم لبنان کو دہشت گردی کا میدان نہیں بننے دیں گے اور ہم اس بات کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے کہ جدوجہد کے موجودہ اصولوں کو تبدیل کیا جائے۔ دشمن کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ایک تاریخی اور سٹریٹجک دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔