مسلمانوں کو کمبھ سے باہر رکھنے کے سوال پر احمد نواز نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس بار جنھوں نے ہمیں کمبھ سے باہر رکھنے کی کوشش کی، انھیں یہ نہیں پتہ تھا کہ اوپر والے نے کمبھ کو خود ہمارے پاس بھیج دیا۔
مہاکمبھ جانے والے عقیدتمندوں کی خدمت کرتے ہوئے مسلم
انسانیت کا رشتہ سیاست سے کہیں بڑا ہوتا ہے۔ یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دکھایا ہے پریاگ راج کے ان مسلمانوں نے جنھیں مہاکمبھ سے الگ رکھا گیا تھا۔ جن مسلموں کا مہاکمبھ سے بائیکاٹ کیا گیا تھا، آج وہی مسلم طبقہ کے لوگ کمبھ میلے میں پہنچے عقیدتمندوں کے لیے مسیحا بن کر ابھرے ہیں۔ بات 29 جنوری کی بھگدڑ کے بعد پیدا حالات کی ہو، یا پھر 3 فروری کو بسنت پنچمی کی، ہر وقت مسلم طبقہ کے لوگوں نے حالات کو بہتر بنانے، محبت کا پیغام پھیلانے والا قدم اٹھایا۔
’مونی اماوسیا‘ پر ڈبکی لگانے پہنچے عقیدتمندوں کو کراؤڈ مینجمنٹ کے نام پر جس طرح سے روک دیا گیا تھا، اس کے بعد جو بھی پریشان ہوا وہ صرف عام لوگ تھے۔ ان کی پریشانی کو خود کی پریشانی سمجھ کر سینکڑوں کی تعداد میں مسلم اشخاص مدد کے لیے آگے آئے۔ بسنت پنچمی پر بھی انہی لوگوں نے راہ چل رہے عقیدتمندوں کے لیے پانی، چائے، یہاں تک کہ بریانی کا بھی انتظام کیا۔
بھگدڑ والے دن احمد نے پریاگ راج میں کیا دیکھا؟
احمد نواز (صوفی ازم کے پیروکار) نامی شخص سے جب ہم نے بات کی تو یہ جاننا مقصد تھا کہ اس مدد کے پیچھے ان کی سوچ کیا تھی۔ سب سے پہلے ہم نے بھگدڑ کی رات پیدا ہوئے حالات سے متعلق جاننے میں دلچسپی دکھائی۔ احمد نواز نے بتایا کہ 29 جنوری کو جب وہ اپنے دفتر سے لوٹ رہے تھے تو دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو انتظامیہ جبراً پریاگ راج اسٹیشن کی طرف جانے کا دباؤ بنا رہی تھی۔ یہ ایسے لوگ تھے جو غسل کرنے آئے تھے، لیکن بھگدڑ کے بعد انتظامیہ کی سختی کے سبب آگے نہیں بڑھ پائے۔ ان میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔ احمد نے جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ان لوگوں کے پاس نہ پینے کو پانی تھا، نہ ہی کھانے اور رہنے کا انتظام تھا۔ ان کی تکلیف دیکھ کر ہم نے ہر حال میں ان کی مدد کا فیصلہ کیا۔ ہم نے عزم کیا کہ کچھ بھی ہو جائے، لیکن عقیدتمندوں کو کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر خلد آباد گرودوارہ کے پاس ہم نے سب سے پہلے کھانے کا انتظام کیا۔ ہم نے کھانے کے ساتھ ساتھ بستر، کمبل، گدے کا بھی انتظام کرنا شروع کر دیا۔ پہلے ہم لوگ کم تعداد میں تھے، لیکن ہمیں دیکھ کر دھیرے دھیرے علاقے کے سبھی مسلم بھائی بہن آئے اور جتنا ہو سکتا تھا، تعاون کیا۔
مسلمانوں نے کس طرح کی کمبھ میں آ رہے عقیدتمندوں کی مدد؟
نواز نے بتایا کہ ہماری ہندو بہنوں کے لیے ہم نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ انھیں ٹھہرنے کے ساتھ ساتھ باقی جو بھی ضروریات تھیں، اسے پورا کیا۔ آج دنیا میں یہ مشہور ہو چکا ہے کہ الٰہ آباد میں گنگا جمنی تہذیب دکھائی دے رہی ہے، لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ احمد نواز کہتے ہیں کہ جو لوگ نفرتوں کا بازار چمکا رہے ہیں، ان کے خلاف محبت برقرار رہے، ایسی ہماری کوشش ہے۔
واپس اس رات کا ذکر کرتے ہوئے احمد نواز نے کہا کہ اس دن مسلمانوں نے شہر کی عبادت گاہوں کے دروازے کھول دیے تھے۔ خلد آباد میں مسلم طبقہ معاشی بائیکاٹ کے بعد بھی مدد کے لیے آگے آئے۔ سبزی منڈی مسجد ہو، بڑا تازیہ امام باڑہ ہو، درگاہ ہو یا پھر دولت حسین کالج ہو… ہر جگہ لوگوں نے عقیدتمندوں کے رہنے، کپڑے اور دواؤں کا انتظام کیا۔ یہاں تک کہ مساجد کے امام بھی مدد کے لیے آگے آئے۔ احمد کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی لالچ نہیں تھی، بس ہم نے یہ سوچا کہ کوئی بھی ہمارے عقیدتمند بھائی بہن یہ نہ سوچیں کہ مصیبت کے وقت بھی ہمارے لیے کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ ہماری اس چھوٹی سی مدد کے بدلے میں ہمیں خوب دعائیں بھی ملیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔