’کیجریوال-مودی نے کروڑوں خرچ کر اپنا چہرہ چمکایا، ٹی وی دیکھ کر بھروسہ مت کیجیے‘، انتخابی اجلاس سے پرینکا گاندھی کا خطاب

پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’مودی جی کہتے ہیں جواہر لال نہرو جی کے سبب ملک زوال پذیر ہے، کیجریوال کہتے ہیں ہم مودی کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہے، میں نے اپنی زندگی میں ان کے جیسے بزدل لیڈران نہیں دیکھے۔‘

<div class="paragraphs"><p>انتخابی جلسہ کے دوران پرینکا گاندھی اور چاندنی چوک سیٹ سے کانگریس امیدوار مُدت اگروال، تصویر@INCIndia</p></div><div class="paragraphs"><p>انتخابی جلسہ کے دوران پرینکا گاندھی اور چاندنی چوک سیٹ سے کانگریس امیدوار مُدت اگروال، تصویر@INCIndia</p></div>

انتخابی جلسہ کے دوران پرینکا گاندھی اور چاندنی چوک سیٹ سے کانگریس امیدوار مُدت اگروال، تصویر@INCIndia

user

دہلی اسمبلی انتخاب کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی آج چاندنی چوک (مُدت اگروال) اور نئی دہلی سیٹ (سندیپ دیکشت) سے پارٹی امیدوار کی حمایت میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتی ہوئی نظر آئیں۔ اس دوران انھوں نے مرکز کی مودی حکومت اور دہلی کی عآپ حکومت کو پُرزور انداز میں ہدف تنقید بنایا۔ سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر بھی وہ بلاواسطہ حملے کرتی ہوئی نظر آئیں۔ انھوں نے کیجریوال-مودی کو جھوٹ بولنے والا اور وعدہ خلافی کرنے والا لیڈر قرار دیا۔

انتخابی جلسہ میں عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’کیجریوال نے 450 کروڑ روپے اپنی تشہیر پر خرچ کیے۔ مودی نے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کر کے اپنا چہرہ چمکایا۔ اس لیے ٹی وی دیکھ کر بھروسہ مت کیجیے۔ یہ دیکھیے کہ آپ کی زندگی بہتر ہوئی ہے یا نہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’انتخاب کے وقت مودی-کیجریوال اپنا مفاد حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے، اس سے آپ ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کا مستقبل بہتر کر سکتے ہیں۔ آپ پتہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ کرناٹک، ہماچل اور تلنگانہ میں کانگریس کی حکومتیں کتنے اچھے اچھے کام کر رہی ہیں۔‘‘

پرانی دہلی کی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’جب ہم چھوٹے تھے تب ہماری دادی اندرا گاندھی جی ہمیں سیتارام بازار کی رام لیلا میں لے کر آتی تھیں۔ اس رام لیلا میں ہر مذہب کے لوگ ہوتے تھے اور وہ اس میں حصہ لیتے تھے۔ یہاں صدیوں سے ایک الگ ثقافت رہی ہے اور سب محبت سے رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’دہلی ملک کا مرکز ہے۔ یہاں ہمیشہ سے ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آتے رہے، جو یہاں آ کر اپنا زندگی بناتے۔ دہلی میں ایک مثال بننی چاہیے تھی، جس سے ہمیں فخر ہو سکے۔ لیکن سیاست کے سبب یہاں ترقیاتی کام رک گئے۔‘‘

مرکزی اور دہلی کی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے پرینکا گاندھی کہتی ہیں کہ ’’گزشتہ 10 سالوں سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت ہے اور دہلی میں کیجریوال کی حکومت ہے۔ تب آپ نے 500 روپے میں گیس سلنڈر کیوں نہیں دیا؟ حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ سمجھتے کہ ملک کی دولت عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، نہ کہ ارب پتیوں کے ہاتھ میں۔ نریندر مودی جی نے آج سارے بندرگاہ، ایئرپورٹ، کوئلہ کے کان، بجلی، انفراسٹرکچر سب اڈانی کو سونپ دیے۔ یہی وہ پی ایس یو تھے جن سے لوگوں کو روزگار ملتا تھا۔‘‘

کیجریوال اور مودی کے درمیان چل رہی الزام تراشیوں اور سیاسی بیان بازیوں کا تذکرہ بھی پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج نریندر مودی شیش محل کی بات کرتے ہیں، کیجریوال مودی کے راج محل کی بات کرتے ہیں، جبکہ لوٹا دونوں نے ہے۔ عوام کے ایشوز مہنگائی اور بے روزگار ہیں، لیکن آج بجٹ میں مہنگائی پر کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’عوام پر کیا گزر رہی ہے، لوگ کس طرح اپنی فیملی چلا رہے ہیں، اس پر کوئی بحث نہیں کر رہا۔ ملک میں جہاں بھی کانگریس حکومت ہے، وہاں عوام کے ایشوز کو توجہ میں رکھ کر لوگوں کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔‘‘

اپنے خطاب کے دوران پرینکا گاندھی نے مودی اور کیجریوال کو بزدل تک کہہ ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جو سیاست ایک دوسرے کو لڑاتی ہے، وہ صرف اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہے، اور بی جے پی کی ہمیشہ یہی سیاست رہی ہے۔ نریندر مودی اپنی تقریر میں ہمیشہ دوسروں کی تنقید کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جواہر لال نہرو جی کے سبب ملک زوال پذیر ہے۔ دوسری طرف کیجریوال کہتے ہیں کہ ہم نریندر مودی کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ان کے جیسے بزدل لیڈر نہیں دیکھے، جو کسی چیز کی ذمہ داری لینا نہیں جانتے۔‘‘

ملک میں بڑھ رہی بے روزگاری کے تعلق سے کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا کہ ’’آج ملک میں والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھیں، ان کی طرح پریشانی برداشت نہ کریں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے خوش رہیں اور خوب ترقی کریں۔ لیکن پھر بھی بچے آج بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ یہ حال تب ہے جب مرکز میں کئی سرکاری عہدے خالی پڑے ہیں اور دہلی میں تقریباً 25 ہزار عہدے خالی ہیں۔‘‘

چاندنی چوک میں منعقد انتخابی جلسہ سے مُدت اگروال نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے خود کو چاندنی چوک کا باشندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں بھی چاندنی چوک کا ہی باشندہ ہوں۔ پرانٹھے والی گلی میں میری پیدائش ہوئی۔ تب اس شہر میں رونق ہوتی تھی، لیکن گزشتہ 10 سالوں میں عآپ نے ہم سے وہ رونق چھین لی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج تاریخی چاندنی چوک کے حالات ایسے ہیں کہ سڑکیں ٹوٹی ہیں، سیور بہہ کر گھروں میں آتا ہے۔ پینے کے لیے گندا پانی ہے، جام سے ہمیں روز پریشان ہونا پڑتا ہے۔ یہی اس علاقے کی سچائی ہے۔‘‘

مُدت اگروال چاندنی چوک علاقہ کا نقشہ بدلنے کا عزم رکھتے ہیں اور وہ لگاتار اپنے منصوبوں کو عوام کے سامنے رکھ بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ ’’جامع مسجد، چاندنی چوک میں گوری شنکر مندر، دگمبر جین مندر، شیش گنج صاحب گرودوارہ اور سنہری مسجد… یہ ہماری مذہبی وراثتیں ہیں۔ اجمیری گیٹ، دہلی گیٹ، کشمیری گیٹ، موری گیٹ، لال قلعہ اور ساتھ میں لاتعداد پرانی عمارتیں ہماری تاریخی وراثتیں ہیں۔ یہ سبھی سیاحتی مقامات ہیں اور ان علاقوں کو خوبصورت و صاف ستھرا بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’دہلی میں تحریک آزادی اسی علاقہ سے شروع ہوا تھا۔ یہیں سے کئی بڑے مجاہدین آزادی اٹھ کھڑے ہوئے تھے، مثلاً داداجی لالا رام چرن اگروال جنھیں 3 مرتبہ انگریزوں نے جیل بھیجا۔ رادھا رمن جی، ارونا آصف علی جی، ضیا صاحب، عبدالستار جی، میر مشتاق احمد جی، انور دہلوی جی، شوکت علی ہاشمی جی… نے اس ارضِ پاک پر جنم لیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *