مرکزی بجٹ میں ریاست تلنگانہ کے ساتھ شدید نا انصافی
بی جے پی اور کانگریس کے آٹھ، آٹھ اراکین پارلیمنٹ مساوی ہیں صفر ۔کے کویتا کا طنز
ہلدی بورڈ کے لئے ایک روپیہ بھی مختص نہ کرنا نظام آباد کے کسانوں کے ساتھ دھوکہ کے مترادف
ہمارے چیف منسٹر بڑے بھائی، چھوٹے بھائی کہتے پھرتے ہیں تاہم بجٹ میں کچھ نہیں ملا
بڑے پراجیکٹس نظر انداز، دستکاری صنعت کو ٹیکس کے دائرہ میں لانا باعث شرم
حیدرآباد، رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کلواکنٹلہ کویتا نے مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کے ساتھ شدید نا انصافی پر برہمی کا اظہار کیا اور بی جے پی اور کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
کویتا نے تلنگانہ میں بی جے پی اور کانگریس کے آٹھ، آٹھ ارکان پارلیمان کی موجودگی کے باوجود تلنگانہ کو بالکلیہ طور پر نظر انداز کردینے پر طنز کیا اور کہا کہ بی جے پی کے آٹھ اور کانگریس کے آٹھ اراکین پارلیمنٹ مساوی ہیں صفر۔وہ آج پارلیمنٹ میںپیش کردہ مرکزی بجٹ میں پھر ایک مرتبہ ریاست تلنگانہ کو بالکلیہ طور پر نظر انداز کردینے پر رد عمل کا اظہار کررہی تھیں۔
سوشیل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پوسٹ میں کویتا نے کہا کہ مرکزی بی جے پی حکومت نے تلنگانہ کے ساتھ سنگین نا انصافی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی موازنہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بی جے پی کو تلنگانہ کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جب کہ ریاست میں برسر اقتدار کانگریس حکومت کی ناکامی اور نا اہلی بھی عیاں ہوچکی ہے۔ سابق رکن پارلیمان نظام آباد کویتا نے نشاندہی کی کہ مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کے کسی بھی بڑے پراجیکٹ کے لئے فنڈ کا اختصاص عمل میں نہیں آیا۔
نہ ہی آبپاشی پراجیکٹس کو قومی پراجیکٹ کا درجہ دیا گیا اور نہ ہی سمکا سارلما جاترا کو قومی جاترا کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ کے کویتا نے پرزور انداز میں کہا کہ مرکزی حکومت، تلنگانہ کے مفادات کو نظر انداز کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز نے 1.5لاکھ کروڑ روپئے کے بلاسودی قرضہ جات کی فراہمی کا اعلان کیا ہے تاہم چیف منسٹر تلنگانہ ریونت ریڈی اس مد میں بھی ریاست تلنگانہ کے لئے کچھ بھی حاصل کرنے کی مساعی نہیں کی۔
کویتا نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہمارے چیف منسٹر ریونت ریڈی بڑے بھائی ۔۔۔۔۔چھوٹے بھائی کہتے پھرتے ہیں ۔ کم از کم انہیں فنڈس کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ کویتا نے مطالبہ کیا کہ بلاسودی قرض کی مد میں تلنگانہ کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی مساعی کی جانی چاہئے۔
بی آر ایس سربراہ و سابق چیف منسٹرکے چندر شیکھر راﺅ کی دختر کے کویتا نے کہا کہ تلنگانہ میں تعلیمی اور فلاحی اداروں کے قیام کے دیرینہ مطالبہ کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (IIM) کے قیام کا ایک طویل عرصہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے تاہم مرکزی بجٹ میں اس کو شامل نہیں کیا گیا جو کہ انتہائی مایوسی کی بات ہے۔ رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں سے منریگا (دیہی روزگار طمانیت اسکیم) کے فنڈس میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ جاریہ سال بھی مرکز نے اس سلسلہ میں فنڈس میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بی جے پی حکومت کو غریب عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کویتا نے کہا کہ برطانوی دور میں بھی ہینڈلوم انڈسٹری پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تھا تاہم بی جے پی حکومت نے دستکاری صنعت کو ٹیکس کے دائرہ میں لاکر لاکھوں دستکاروں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں احتجاج کے باوجود دستکاری صنعت کو ٹیکس کے دائرہ میں لانا باعث شرم ہے۔ کویتا نے کہا کہ کسانوں ، خواتین کو بااختیار بنانے کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود جیسے امور پر مرکزی بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبہ کے لئے کم بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ کویتا نے احساس ظاہر کیا کہ اگر تعلیمی شعبہ کے لئے کم از کم چھ فیصد فنڈس مختص کئے جاتے تب ایس سی ، ایس ٹی اور بی سی کے تمام طلبہ کو مکمل اسکالرشپ حاصل ہوسکتی تھی۔
کویتا نے مرکزی بی جے پی حکومت کو شدید ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ہلدی بورڈ کے لئے صفر بجٹ کا اختصاص کسانوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے ہلدی بورڈ کے قیام کا ادعا تو کیا مگر بجٹ میں اس کے لئے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا۔ کویتا نے سوال کیا کہ جب مصالحہ بورڈ، چائے بورڈ، کافی بورڈ و دیگر کے لئے فنڈ مختص کئے جاسکتے ہیں تو پھر ہلدی بورڈ کے لئے کیوں نہیں؟۔ کویتا نے الزام عائد کیا کہ مرکز نے نظام آباد کے کسانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بغیر فنڈس کے ہلدی بورڈ کیسے کام کرے گا اور کس طرح تحقیقی عمل انجام پائے گا؟۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور تلنگانہ کے حقوق اور مطالبات کو تسلیم کرے اور ریاست کے عوام کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرے۔