مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ماضی میں ہم ایک معاہدے پر متفق ہو چکے تھے لیکن امریکہ نے اس معاہدے کو توڑ دیا۔ واشنگٹن کی جانب سے وعدہ خلافی کے بعد اب تعلقات کے قیام میں کوئی اعتماد نہیں ہے۔ یہ اعتماد محض خوشنما الفاظ سے بحال نہیں ہو سکتا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو مذاکرات کے لیے پیغام کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی واضح پیغام نہ بھیجا گیا ہے اور نہ ہی موصول ہوا ہے۔ یہ معاملات میڈیا کی حد تک زیر بحث آرہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور ہم فریق ثانی کے موقف کے منتظر ہیں۔ اگر مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا تو وہ برابری کی بنیاد پر ہوں گے۔ تاہم فی الحال ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان ہمارا ایک اہم ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں متعدد اہم امور اور قومی مفادات شامل ہیں۔
پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ افغان حکام بھی اس معاملے کو تسلیم کرتے ہیں اور افغان حکومت ایران کے پانی کے حق کو نہ صرف دونوں ممالک کے معاہدے کے تحت بلکہ شرعی اور انسانی فریضہ سمجھتی ہے۔ تاہم خشک سالی اور پانی کی قلت ایک حقیقت ہے۔ معاہدے میں اس حوالے سے ایک طریقہ کار پہلے سے طے شدہ ہے۔
عراقچی نے کہا کہ افغان حکومت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ غیر قانونی مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل ایک منظم طریقے سے انجام پائے۔