ہماچل پردیش میں 2017 میں پیش آئے کمسن لڑکی گڑیا کی عصمت ریزی اور قتل کے کیس میں پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے مشتبہ ملزم سورج کی موت کے کیس میں انسپکٹر جنرل سمیت 8 پولیس عہدیداروں کو عمر قید سزا سنائی گئی۔
ان میں ہماچل کے آئی جی ظہور حیدر زیدی بھی شامل ہیں۔ یہ واقعہ 4 جولائی 2017 کو پیش آیا تھا جب شملہ کے کوٹکھائی علاقے سے اسکول کی ایک طالبہ لاپتہ ہوگئی تھی،
اور دو دن بعد اس کی نعش جنگل میں ملی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی کہ لڑکی کے ساتھ عصمت ریزی کی گئی تھی، جس کے بعد یہ معاملہ طول پکڑ گیا اور بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
اس سنگین جرم پر عوامی غصے کے بعد اس وقت کی ریاستی حکومت نے 13 جولائی 2017 کو ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) تشکیل دی، جس کی قیادت زیدی کو سونپی گئی۔ ایس آئی ٹی نے پانچ افراد کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک سورج سنگھ 18 جولائی 2017 کو کوٹکھائی پولیس اسٹیشن میں حراست کے دوران ہلاک ہو گیا۔
شملہ پولیس کا دعویٰ تھا کہ سورج کو جیل کے اندر دوسرے قیدی نے جھگڑے کے دوران قتل کر دیا۔ تاہم، ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے اس کیس کی تفتیش سی بی آئی کے حوالے کر دی۔
دیگر قصوروار پولیس افسران میں اس وقت کے ٹھیوگ کے ڈی ایس پی منوج جوشی، کوٹکھائی کے سابق ایس ایچ او راجندر سنگھ، اے ایس آئی دیپ چند، ہیڈ کانسٹیبل سورت سنگھ، موہن لال، رفیق علی اور کانسٹیبل رنجیت سنگھ شامل ہیں۔ عدالت نے شملہ کے اس وقت کے ایس پی ڈی ڈبلیو نیگی کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔
اس معاملے میں اصل مجرم انیل کمار عرف نیلو کو 18 جون 2021 کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سی بی آئی نے اپریل 2018 میں نیلو کو گرفتار کیا تھا اور تحقیقات کے دوران اسے قصوروار پایا گیا تھا۔
سی بی آئی نے 22 جولائی 2017 کو کیس درج کر کے زیدی، ڈی ایس پی جوشی اور سات دیگر پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ تفتیش کے دوران، سی بی آئی نے پایا کہ سورج سے زبردستی اعتراف جرم کروانے کے لیے اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ جان لیوا زخموں کا شکار ہوا۔ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ سورج کے جسم پر 20 سے زیادہ زخم تھے
، جو کسی سخت، گولائی والی چیز جیسے لاٹھی یا راڈ سے مارنے کے نتیجے میں آئے تھے۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) کے ڈاکٹروں کی رپورٹ میں بھی تشدد کی تصدیق کی گئی
نومبر 2018 میں ملزمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ مقدمے کی سماعت شملہ سے کسی اور ریاست میں منتقل کی جائے۔ سی بی آئی کے وکیل نے بھی عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ مقدمہ اب تک اپنے انجام تک نہیں پہنچا، لہٰذا اسے دہلی کی عدالت منتقل کیا جائے تاکہ جلد از جلد سماعت مکمل ہو سکے۔ سی بی آئی نے یہ بھی کہا کہ زیدی چونکہ ایک سابق آئی جی پی ہیں، اس لیے وہ گواہوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں
آئی جی ظہور حیدر زیدی 1994 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں اور 2017 میں انہیں گڑیا ریپ اور قتل کیس کی تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کیس کی وجہ سے زیدی تقریباً ڈیڑھ سال تک شملہ کی کانڈا جیل میں قید رہے۔
بعد میں 2019 میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دے دی، لیکن کیس کی سماعت جاری رہی۔ 2020 میں حکومت نے انہیں معطل کر دیا، تاہم تین سال بعد انہیں بحال کر کے دوبارہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں شامل کر دیا گیا تھا۔