نئی دہلی: امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ نے لاس اینجلس شہر کے بڑے حصے کو مکمل طور پر راکھ میں بدل دیا ہے۔ اس آگ کے نتیجے میں سینکڑوں گھر، اسکول اور عبادت گاہیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لٹیرے بھی سرگرم ہو گئے ہیں، جو آگ سے متاثرہ خالی گھروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس دوران، ایک اور سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے, یہ افراد آگ سے متاثرہ خالی گھروں کو نشانہ بنا کر ان میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔ جب مکین اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں، تو یہ لٹیرے ان خالی گھروں کا فائدہ اٹھا کر سامان چوری کر رہے ہیں، جس سے مقامی حکام کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔
ان حالات میں حکام نے فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کیا ہے تاکہ ان لٹیروں کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے اور متاثرہ علاقوں میں امن و امان قائم رکھا جا سکے۔حکام نے جمعرات کو بتایا کہ دو دن گزرنے کے باوجود لاس اینجلس کے مرکز میں آگ پر قابو پانے کے کوئی واضح آثار نہیں ہیں اور آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اب تک 6 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔اس دوران، شہر میں لوٹ مار کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ لٹیرے خالی گھروں میں داخل ہو کر سامان لوٹ رہے ہیں، جس پر حکام کو وارننگ جاری کرنا پڑی۔ حکام نے تقریباً 180,000 لوگوں کو اپنے گھروں کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس آگ کو لاس اینجلس کی تاریخ کی سب سے تباہ کن آگ قرار دیا ہے۔ حکام کے مطابق، شہر کے مغربی حصے میں سانتا مونیکا اور مالیبو کے درمیان پیلیسیڈز کی آگ اور مشرق میں ایٹن کی آگ نے تقریباً 28,000 ایکڑ رقبے کو جلا دیا ہے، اور زیادہ تر رقبہ راکھ میں تبدیل ہو چکا ہے۔آگ کی شدت کے باوجود، حکام کا کہنا ہے کہ ایٹن کی آگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، حالانکہ یہ اب بھی شدید ہے۔ اس دوران، ہفتے کے آغاز میں 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں کم ہوئی ہیں، جس سے فضائی امداد کی کارروائیوں میں مدد ملی
تاہم، حکام نے خبردار کیا ہے کہ دن بھر 95 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے کی توقع ہے، اور رہائشیوں کو انخلاء کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔یہ آگ اس قدر تباہ کن ثابت ہوئی ہے کہ شہر میں زندگی معمول پر آنا مشکل ہو چکا ہے، اور آگ کی شدت کے ساتھ ساتھ حکام کی جانب سے انخلاء کی ہدایات اور شہریوں کی مدد کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔