مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے ایک چینی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹجک تعاون کا معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں وسیع تعاون کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیح ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ہے جو مشکل حالات میں ایران کے ساتھ کھڑے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا چین کا دورہ صدر پزشکیان کی حکومت میں پہلا دو طرفہ غیر علاقائی دورہ تھا جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران چین کے ساتھ تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
عراقچی نے کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ ہم نے 1+5 ممالک کے ساتھ دو سال تک نیک نیتی سے مذاکرات کیے اور ایک ایسا معاہدہ کیا جسے دنیا نے ایک سفارتی کامیابی کے طور پر قبول کیا۔ تاہم یہ امریکہ تھا جس نے بلاجواز اس معاہدے سے نکل کر موجودہ حالات پیدا کیے۔
عراقچی نے کہا کہ ایران اب بھی تعمیری اور بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران کی نظر میں جو فارمولہ ہے وہ وہی ہے جو جوہری معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ جوہری پروگرام پر اعتماد سازی کے بدلے اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور مکمل کر لیا ہے، جبکہ دوسرا دور آئندہ دو ہفتوں میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چین اور روس ماضی میں مذاکرات کے اہم حصہ دار تھے۔ ایران توقع کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی تعمیری کردار ادا کریں گے۔
عراقچی نے کہا کہ حزب اللہ لبنان ایک مضبوط تنظیم ہے جو ہر چیلنج کے بعد مزید مستحکم ہو کر ابھری ہے۔ جب بھی اس تنظیم کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، تنظیم مزید طاقتور ہوکر سامنے آئی ہے۔ حزب اللہ کا لبنان میں ایک مضبوط سیاسی اور سماجی کردار ہے اور یہ تنظیم لبنان کے اندر اپنی موجودگی کو برقرار رکھے گی۔
شام کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ ایران شام میں استحکام اور امن کا خواہاں ہے۔ ہم زبانی دعوؤں سے زیادہ عملی اقدامات کو دیکھتے ہیں۔ ایران شام میں تمام اقوام کی سلامتی اور حفاظت کا خواہاں ہے۔
عراقچی نے غزہ اور حماس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے ارادے سے غزہ میں داخل ہوا تھا، لیکن اب وہی اسرائیل حماس سے جنگ بندی کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ ایران حماس اور فلسطینیوں کی جانب سے قبول کردہ کسی بھی جنگ بندی کی حمایت کرے گا۔