تحریر:سید سرفراز احمد بھینسہ تلنگانہ
کسی بھی تنظیم کا نظریہ ہی اس کا اہم ہدف ہوتا ہے چاہے اس کے لیئے جان کے لالے ہی کیوں نہ پڑجاۓ لیکن وہ اپنے نظریہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے چونکہ اس کے پیچھے کا اصل کام ذہن سازی کا ہوتا ہے جو ایک فرد کو کسی بھی نظریہ کا مکمل پابند بناتا ہے چاہے وہ نظریہ قانونی طور پر قبول ہو یا غیر قانونی طور پر ناقبول پھر بھی وہ اپنے نظریہ کے مخالف ہرگز نہیں جاسکتااسی لیئے کہا جاتا ہے سماج کو اپنی جانب پرکشش بنانے کے لیئے افراد سازی کا کام اہم ہوتا ہے جس کے لیئے ذہن سازی ضروری ہوتی ہے اور ذہن سازی کے لیئے اس نظریہ کا لٹریچر اہم ہوتا ہے جس کی جس نہج پر ذہن سازی ہوگی وہ اسی نظریہ کا حامی بن جاتا ہے بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک فرد کے پاس نظریہ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے جس کے لیئے وہ اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔
اب آتے ہیں اہم اصل موضوع پر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) بھی ایک مخصوص نظریہ کے تحت کام کرتی ہے گولوالکر نے اپنی تقریروں کا مجموعہ بنچ آف تھاٹس کتاب میں کہا کہ ہمارا مقصد اس بھارت کو ہندوراشٹر بنانا ہے وہیں پر آگے بڑھ کر لکھا کہ عیسائی اور مسلمانوں کی اس ملک میں ثانوی درجہ کی حیثیت ہوگی گولوالکر نے اس کتاب میں مزید کہا کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ کوبھارت کے لیے اندرونی خطرہ بھی بتایا ان کا ماننا تھا کہ ان تینوں طبقات کو ہی تباہ و برباد کرکے ہندو اس ملک کی خدمت کرسکتا ہے سابق سرسنگھ چالک گولوالکر جرمنی کے ہٹلر سے متاثر تھے جس طرح ہٹلر کی قیادت میں نازی آگے رواں دواں تھے اور یہودیوں کو جس نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ٹھیک اسی طرز پر گولوالکر بھی اس ملک کے مسلمانوں کو رکھنے کےقائل تھے۔
گولوالکر کہتے تھے کہ اس ملک سے صرف ہندو ہی اصل محبت کرسکتا ہے مبصرین لکھتے ہیں آر ایس ایس کے جتنے سرسنگھ چالک گذرے ہیں ان میں سب سے جارحانہ تیور گولوالکر رہے ہیں خاص طور مسلمانوں کے متعلق ان کا رویہ بہت متشدد رہا ہے تب ہی آر ایس ایس کے بانی کیشو رام بلی رام ہیڈگوار نے گولوالکر کے افکار اور نظریات کی پختگی دیکھ کر اپنا قریبی رفیق بنایا تھا ہیڈگوار کی موت کے بعد گولوالکر نے سرسنگھ چالک کا عہدہ سنبھالا اور تین دہائیوں تک وہ اس عہدے پر برقرار رہے جس ہندو راشٹر کے خواب کو سو سال پہلے سجایا گیا تھا وہ آج اسی نظریات کو نافذ کرنے کی تگ ودو کررہے ہیں بہت حد تک آگے بھی بڑھ چکے ہیں۔
ملک میں مسجدوں پر مندروں کے ہونے والے دعوے اورتنازعات میں ایک طرح سے تیزی پیدا ہوچکی ہے ایسے معاملات بالآخر نچلی عدلیہ تک پہنچ جاتے ہیں اور مشکوک فیصلے بھی ہوتے ہیں ایسے میں تشدد کی آگ بھی پیدا ہوجاتی ہے اور اترپردیش کے تاریخی شہر سنبھل میں پانچ مسلم نوجوان پولیس کی جانبداری کی وجہ سے شہید ہوجاتے ہیں ایسے نازک حالات میں آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کا ایک بیان سامنے آتا ہے انھوں نے پونے شہر میں بھارت وشو گرو پر لکچر دیتے ہوۓ کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرکے ہندو طبقہ کا بڑا قائد بننے کی کوشش کررہے ہیں جس کے بعد ملک کے سیکولر جماعتوں و کچھ مسلم دانش واران کی جانب سے اس بیان کا خیر مقدم کیا جانے لگا اور مسلم مذہبی قائدین کو موہن بھاگوت سے گفت و شنید کو آگے بڑھانے کے بھی مشورے دیئے جانے لگے لیکن بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس بیان کو ہوائی فائرنگ کے مترادف بھی بتایا ہے پھر ہم نے محسوس کیا کہ اس بیان کو صرف ایک بیان کے نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیئے بلکہ اس کے پیچھے کار فرما نظریہ کو بھی دیکھنا چاہیئے جس کو کھنگالنے پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاۓ گا۔
اول بات تو یہ کہ آر ایس ایس اپنے نظریہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتی دوئم یہ کہ جن کا نظریہ ہی ہندو راشٹر کے قیام کا ہو جو اس ملک کی اقلیت کو اپنا کٹر حریف مانتی ہو وہ بھلا کیسے نرم رویہ اپنا سکتی ہے سوم یہ کہ بھاگوت نے نبض پر ہاتھ رکھ کر صرف مرض کی تشخیص کی نہ کہ علاج کی اسی لیئے انھوں نے وقت کی نزاکت کے تیئں جلتی پر تیل کا کام کرنے کے بجاۓ نرم گوشی کو اختیار کیا لیکن یہ بھی یاد رہے کہ وہ اپنے نظریات پر قائم رہیں گے جس سے وہ ایک انچ بھی ہٹ نہیں سکتے جس کی جہد مسلسسل میں وہ اپنےشب و روز لگا رہے ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ ان کے اچھے بیانات کا استقبال کرنا چاہیئے تو ان سے ہمارا یہ سوال ہے کہ بھاگوت نے ماضی میں کیوں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہونے کی بات کی تھی؟بھاگوت نے یہ کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کے آبا و اجداد بھی ہندو ہی تھے؟اگر یہ مان بھی لیا جاۓ کہ آر ایس ایس اپنے نظریات سے کنارہ کشی کررہی ہے تو اس بات کو بھی ہم بھاگوت کے سابق بیان کے تیئں دیکھ سکتے ہیں جس میں انھوں نے خود کہا تھا کہ آر ایس اس کے بانی ہیڈگوار اور نظریہ ساز گرو گولوالکر کے نظریہ پر آج بھی قائم ہے۔
جن کا کہنا ہے کہ یہ ملک ہندوستان ہندوؤں کا ہے اس میں دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ہاں وہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں ہندوؤں کا ماتحت بن کر رہنا پڑے گا یعنی بہ الفاظ دیگر انھیں دوئم درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا اس بات کو خود بھاگوت نے بھی کئی بار دہرایا ہے جس کا مفہوم یہی نکلتا ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنے مذہب پر رہتے ہوۓ ہندو تہذیب پر چلیں یعنی مثال کے طور یکساں سول کوڈ ہو یاتین طلاق یا دیگر مسلمانوں کی شریعت کو آہستہ آہستہ ختم کرتے ہوۓ انھیں اپنے ہندو رسم و رواج کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی جارہی ہے موہن بھاگوت نہ صرف ایک شخصیت ہے بلکہ اس کے پس پردہ ایک نظریہ ہے جس کو ہم سمجھے بغیر ان کے بیانات کاخیر مقدم کرنا غیر دانش مندی کی علامت ہے۔
موہن بھاگوت کبھی مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ڈرنے کی ضرورت نہیں وہ اگر اپنے مذہب یعنی مذہب اسلام پر چلنا چاہتے ہیں تو چل سکتے ہیں اور اگر اپنے آبا و اجداد کے مذہب پر یعنی ہندو مذہب پر واپس آنا چاہیں تو آسکتے ہیں گویا وہ مسلمانوں کی گھر واپسی چاہتے ہیں البتہ وہ اس بات کو کھل کر پیش نہیں کرتے ان کا یہ کہنا کہ وہ اس ملک کے ہر شہری کو ہندو مانتے ہیں موہن بھاگوت عام طور پر اپنی بات بہت کم کھل کر رکھتے ہیں چونکہ وہ بہت سی باتیں اشاروں کنایوں میں کہتے ہیں جس کا ہم فوری مثبت رد عمل دینے لگ جاتے ہیں اور اچھل کود کر کہتے ہیں کہ بھاگوت نے مسلمانوں کے حق میں بات کہی ہے دراصل موہن بھاگوت کا بیان آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اور جو لوگ خوش فہمی کا شکار ہیں وہ اس خول کی دنیا سے باہر نکلیں اور بھاگوت کے سابق بیانات کو اور ان کے نظریات کو کھنگال کر دیکھ لیں مطلع صاف ہوجاۓ گا۔
موہن بھاگوت ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں مگر دوسری طرف انھیں استعاروں اور کنایوں میں ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں جن کا یہ رویہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مترادف ہے ہاں موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہر مندر کے نیچے شیولنگ کیوں ڈھونڈنا ہے ہمیں لڑائی جھگڑا کیوں کرنا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ موہن بھاگوت کی اس بات پر کیا ہندو سماج نے عمل آواری کی ہے؟اگر کی ہوتی تو سنبھل کا تشدد پیش نہ آتا اور نہ ہی ایک کے بعد دیگر تنازعے پیدا ہوتے یوگی آدتیہ ناتھ جو سنگھ کے قریب ترین مانے جاتے ہیں جنھیں سنگھ کی ہی سفارش پر اترپردیش کا وزیر اعلی بنایا گیا پھر کیوں وہ موہن بھاگوت کی باتوں پر عمل آواری نہیں کرتے؟پھر کیا موہن بھاگوت نے انھیں کبھی ظلم و جبر مندر مسجد کی سیاست سے باز آنے سے روکا ہے؟
شائد کہ ایسا ہرگز بھی نہیں ہوا ہوگا ایسے میں موہن بھاگوت کے اس بیان کو صرف ایک بیان تک ہی محدود رکھنا ہوگا اس پر عمل آواری کی کوئی گنجائش بھی پیدا نہیں ہوسکتی اور توقع رکھنا بھی حماقت کی نشانی ہوگی ایسے بیانات صرف مسلمانوں کے مجروح جذبات کو پانی کا گھونٹ دینے کے مترادف ہی کہا جاسکتا ہے تاکہ کسی بھی طرح سے مسلمانوں سے ہمدردی جتاکر ان کا دل جیتا جاۓ ان گیارہ سالوں میں مودی سرکار نے سو سال پہلے بناۓ گئے نظریات کو نافذ کرنے کے لیئے گولوالکر کے نظریات کی ایک ایک چیز کو لانے کی کوشش کررہے ہیں جو آر ایس ایس خود بھی چاہتی ہے اسی لیئے اس ملک کے مسلمانوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آر ایس ایس ہو یا اس کی ذیلی تنظیمیں یہ اپنے افکار نظریات اور ایجنڈے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اگر بھاگوت کو مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تو وہ سنبھل کے پانچ مسلم نوجوانوں کی شہادت پر کم از کم مگر مچھ کے آنسو تو نہیں ہمدردی کے دو بول نچھاور کرتے لیکن ایسا نہیں ہوگا یاد رہے آر ایس ایس اور موہن بھاگوت سے اچھی امیدیں اور نیک توقعات آ رکھنا پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہی ہوگا۔