سال نو پر غیر اسلامی حرکات سے اجتناب کریں   مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی کا جامع مسجد دارالشفاء میں خطاب

حیدرآباد 28دسمبر (راست) نیا سال کے نام پر نوجوان جو کبائرگناہ کا ارتکاب کر رہا ہے وہ قابل افسوس ناک و دردناک ہے نئے سال کے نام پر فحاشیت و عریانیت عام ہو چکی ہے دیکھا جا رہا ہے کہ 31 دسمبر کی رات نوجوان سڑکوں پر شراب پی کر ناچتے گاتے ہیں حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی (نائب خطیب جامع مسجد دارالشفاء)نے جامع مسجد دارالشفاء میں جمعہ کے خطاب کے موقع پر کیا۔مولانے کہا کہ اسلام میں ناچ گانا حرام ہے قران و حدیث میں شراب نوشی کی ممانعت پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں گھروں میں دیکھا جا رہا ہے کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے کیک کاٹے جا رہے ہیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ تو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہو جاتا ہے یہ جو 31 دسمبر کی رات نقص و سرور کی محفل سجانا کیک کاٹنا ناچ گانا کرنا یہ تمام یہود و نصاری کی عادتیں ہیں اگر کوئی مسلمان ان عادتوں میں ملوث ہے تو اسلام سے بہت دور ہے کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے دین پر چلیں اور یہود و نصاری کے طریقے کی مخالفت کرے مولانا نے کہا کہ آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓفرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔مولانا نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بل کہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضیؓ کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *