جناب شجاعت علی
ریٹائرڈ آئی آئی ایس
شوہر کی زیادتی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا اور ذہنی و دلی تکلیف کو برداشت کرنا یقیناً کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن ہماری بیٹیاں ایسا کرتی ہیں تو اس کے نتائج خوشگوار نکلتے ہیں اور ایک نہ ایک دن شوہروں کو اپنے اس غلط عمل کا احساس ہوہی جاتاہے اور وہ اپنی بیوی کا مداح بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ تو رہی دنیا کی بات اللہ تعالیٰ ان عورتوں کو بے حد پسند فرماتے ہیں جو اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرتیں۔ آنحضرت حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”جو عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھے‘ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عصمت کا تحفظ کرے‘ شوہر کی تابعداری اور فرمانبرداری کو معراج سمجھے تو اس کو اختیار ہے کہ وہ جس در وازے سے چاہے جنت میں بے خوف چلی جائے“۔
محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ صاحبؒ نے اپنی مواعظ حسنہ جلد نمبر ایک میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ام سلیم (ابوطلحہ) کی زوجہ تھیں آپ اطاعت گزار وفرمانبردار بیوی تھیں جس کی وجہ سے ابوطلحہ بھی ہمیشہ ان کی دلجوئی کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے کہ ان کے اکلوتے فرزند کا انتقال ہوگیا۔ ان کی رفیق حیات نے اس پر چادر اوڑھادی‘ جب آپ تشریف لائے اور دریافت کیاکہ لڑکا کہاں ہے تو بیوی نے کہا سورہاہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو کھانا کھلایا‘ آپ سیر ہوکر کھاچکے تو بیوی کے ہمراہ آرام بھی فرمالیا۔ تو بیوی نے ان سے کہاکہ میں نے فلاں پڑوسی کو ایک چیز مستعار دی تھی جب واپس مانگی تو اس نے بڑا شور مچایا۔ آپ نے فرمایا یہ بڑی نادانی ہے لوگ بھی کیسے احمق ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔ بیوی نے کہا ہمارا لڑکا جو ہمارے پاس خدائے تعالیٰ کا عطیہ اور امانت تھا حق تعالیٰ نے اسے واپس لے لیا۔ اتنا بڑا المناک واقعہ انہوں نے اپنے شوہر کو اس لئے نہیں بتایا کہ وہ تھکے ماندے گھر آئے تھے، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انہیں ایک اور دردناک تکلیف دی جائے۔
صبح کو ابو طلحہؓ نے یہ ماجرا آنحضرت ﷺ سے عرض کیا‘ حضور نے فرمایاکہ کل رات تمہارے لئے مبارک رات تھی جو اس نیک بخت بیوی کی وجہ سے تم کو نصیب ہوئی۔ حضرت عبداللہ شاہ صاحبؒ نے اپنی کتاب میں حضرت فاطمہ زہراؓ کے حوالہ سے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک روز نبی کریمﷺ میرے یہاں تشریف فرماتھے کہ ایک خادمہ نے حاضر ہوکر عرض کیاکہ یارسول اللہﷺ میرے آقا تجارت کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں اور بیوی گھر میں تنہا ہے‘ وہ مکان کے بالائی حصہ میں ہیں اور نیچے ان کے ضعیف والدین مقیم ہیں۔ میاں نے تاکید کی ہے کہ جب تک میں واپس نہ آجاﺅں نیچے نہیںاترنا۔ اس وقت بیوی کے والدین سخت علیل ہیں‘ تیمار دار کوئی نہیں ہے اس لئے بیوی نے عرض کیاہے کہ حضورﷺ اجازت دیں تو وہ نیچے اتر آئے۔ آپﷺ نے فرمایاکہ کہ اپنی بی بی سے کہدو کہ اگر وہ خدا اور رسولﷺ کی خوشنودی چاہتی ہیں تو چاہے ان کے ماں باپ مرہی کیوں نہ جائیں مگر بغیر اجازتِ شوہر اوپر سے نیچے قدم نہ رکھے۔ کنیز چلی گئی اور الٹے پاﺅں آکر عرض کیاکہ حضورﷺ بی بی کے باپ تو انتقال کرگئے ماں بھی جاں بلب ہے۔ اب تو حضورﷺ اجازت دیں‘ بی بی اوپر پڑی رو رہی ہیں اور اپنے ماں باپ کے آخری دیدار سے بھی محروم ہیں۔ حضور نے فرمایاکہ لڑکی اچھی طرح سن لے اور یاد رکھ کے جب تک اس کا شوہر خود آکر اسے نیچے اترنے کی اجازت نادے چاہے کچھ بھی ہوجائے اس کا نیچے اترنا جائز نہیں ہے اور کہہ دے کہ خدا اور رسولﷺ اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اسے اس کا اجر ملے گا۔ وہ لڑکی بے چاری پھر چلی گئی۔ حضرت فاطمہ زہراؓ فرماتی ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد وہ کنیز میرے پاس آئی تو میں نے پوچھا کہ نیک بخت لڑکی تیری بی بی کا کیاحال ہے‘ وہ کہنے لگی قربان جاﺅں رسول مکرمﷺ پر ان کے ماں باپ تو اسی دن انتقال کرگئے۔ دو روز کے بعد شوہر واپس آئے‘ یہ کیفیت سن کر سخت پریشان اور نادم ہوئے۔ اپنی نیک بخت بیوی کی اس فرمانبرداری پر بے حد خوش ہوئے‘ اسی دن بیوی نے خواب میں دیکھاکہ ان کے والدین جنت میں ہیں۔ بیوی نے پوچھا آپ لوگوں کے اعمال دنیا میں تو ایسے نہیںتھے کہ جنت ملتی۔ پھر یہ کیا ماجرا ہے‘ انہوں نے جواب دیا بیٹی تو نے جو اپنے شوہر‘ خدائے برتر اور حضوراکرمﷺ کا کہنامانا تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ نعمت عطاءفرمائی ہے۔ مسلم معاشرہ میں طلاق کی کئی وجوہات ہیں لیکن طلاق کے بیشتر واقعات بیوی کی نافرمانی کے سبب منظرعام پر آرہے ہیں۔
عورت اپنی بدمزاجی اور بری عادتوں کے سبب شوہر کی زندگی کو تلخ بنادیتی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک معمولی بات ہے۔ حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص عورت کی جانب سے دی جانے والی تکالیف پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مثل اجر دیںگے اور جو عورت اپنے شوہر کے ظلم و زیادتی پر صابر رہے تو اس کو حضرت آسیہ (زوجہ فرعون) کی مانند ثواب ملے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورتوں کے مزاج میں چڑچڑاپن اس وقت پیدا ہوتاہے جب وہ شوہر کی بری عادتوں کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہیں اور شوہر اس کی اچھی باتوں کی بھی ان سنی کردیتاہے۔ آسکر وائیلڈ نے کہاتھاکہ ”عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ مگر عورت کے بغیر زندگی بسر کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے“۔ مشہور زمانہ دانشور ملٹن کا کہناہے کہ عورت سب سے اچھا اور سب سے آخری آسمانی تحفہ ہے۔ ایک اور دانشور جان کا کہناہے کہ عورت کی ہاں اور نا میں اتنی قربت ہوتی ہے کہ ان کے درمیان سوئی بھی نہیں جاسکتی۔ ان دانشوروں کے اقوال سے اس بات کا احساس ہوتاہے کہ عورت انتہائی لطیف جذبہ کا نام ہے جس کے ساتھ حساس رویہ کے ذریعہ ہی ایک کامیاب زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ عورت کی تربیت صرف پیار اور محبت ہی سے ممکن ہے۔ خفیف سی سختی بھی کی جاسکتی ہے لیکن فتح صرف محبت کے جذبہ ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
آج کے دور میں نام نہاد شہری حقوق کے نام پر ازدواجی زندگیوں کو بربادیوں کی بھینٹ چڑھایاجارہا ہے۔ ازدواجی زندگی کو پناہ صرف اسلامی تعلیمات ہی میں مل سکتی ہیں۔ دنیا کا سب سے خوبصورت انسان وہی ہے جس سے بات کرنا آسان ہو‘جس سے مشکل میں مدد مانگنا سہل ہو‘ جو دوسرے انسان کی تکلیف محسوس کرسکتا ہو‘ جو آنسو پونچھنا جانتا ہو‘ جو دوسروں کے دکھ دردمیں شامل رہے، جو مرہم بننا اور مرہم لگانا جانتا ہو، اور ایسی شخصیت آپ کی بیٹی، بہو اور رفیق حیات کے سیوا کون ہوسکتی ہے۔ بہرحال عورت کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ
کوئی تدبیر کرو وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی نہیں شام ہوئی جاتی ہے ۰۰۰٭٭٭۰۰۰