[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے سعید ایروانی نے کہا کہ ایران افغان مہاجرین کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے سالانہ 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کررہا ہے۔
افغانستان کے حالات کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈی فیکٹو حکومت کے قیام کے تین سال سے زائد عرصے بعد بھی افغانستان کو گہرے بحرانوں کا سامنا ہے۔ انسانی بحران ان میں سے سب سے نمایاں ہے۔ تقریباً 23.7 ملین افراد اب بھی امداد کے محتاج ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کے مطابق، 11 نومبر تک 3.06 ارب ڈالر کے انسانی امدادی منصوبے کا صرف 37.5 فیصد حصہ خرچ کیا جاسکا ہے۔ مالی وسائل کی شدید کمی اور خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیاں اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ عالمی برادری کو اس بڑھتے ہوئے انسانی المیے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کیے جائیں بصورتِ دیگر بحران مزید سنگین ہو جائے گا اور افغانستان کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ داعش خراسان، القاعدہ اور ان کے حامی گروہ افغانستان اور خطے کے استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
گزشتہ روز کابل میں ہونے والے دہشتگرد حملے جس میں وزیر برائے پناہ گزین امور خلیل الرحمان حقانی سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے، اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ دہشتگردی سے ڈی فیکٹو حکام بھی محفوظ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیعہ اور ہزارہ برادریوں پر بڑھتے ہوئے حملے شدت پسندانہ تشدد میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایران ان حملوں کی مذمت کرتا ہے اور عارضی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشتگرد نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر کارروائی کرے اور تمام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
ایروانی نے کہا کہ مصنوعی افیون کی پیداوار اور منشیات کی تجارت کے خلاف فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ ایران اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کی ان سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہے جو منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کو جدید زرعی طریقے اور بنیادی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ ایران، ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناطے، افغانستان کے بحران کا بڑا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ ایران میں 6 ملین سے زائد افغان پناہ گزین ہیں، جس سے محدود وسائل پر شدید دباؤ ہے۔ ایران سالانہ 10 ارب ڈالر سے زائد ان پناہ گزینوں کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے، لیکن عالمی برادری کی جانب سے مناسب حمایت فراہم نہیں کی جا رہی۔ ایران اور پاکستان جیسے ممالک کو مسلسل امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک ایسا حکومتی نظام تشکیل دینا ضروری ہے جس میں قوانین سازی عوام کے نمائندوں کے ذریعے ہو اور حکمرانی جامع ہو۔ ایک ایسے نظام کی تشکیل، جو تمام طبقات کو شامل کرے، ملک میں طویل المدتی امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ مسلسل اور مربوط تعامل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایران اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔