منی پور کے مسلمان 2 قبائل کے درمیان لڑائی میں پھنس گئے

[]

کواکتا: منی پور میں نسلی تشدد کے آغاز کے بعد سے اب تک زائداز 100 دن گزر چکے ہیں‘ ریاست بتدریج معمول کی طرف لوٹ رہی ہے اور گزشتہ چند دن سے کسی بڑے واقعہ کی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن جھڑپوں کے مبداء میں کوکی قبیلہ کا اکثریتی علاقہ ضلع چوراچاندپور اور مایتی قبیلہ کا اکثریتی علاقہ ضلع بشنوپور میں بندوقوں کی آوازیں اور بم حملے ایک نیا معمول بن چکے ہیں۔

اِن دونوں اضلاع کے بیچ 35 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ایک زمینی پٹی پر بعض مایتی پنگل یا مسلمان رہتے ہیں جو کوکی قبیلہ اور مایتی قبیلے کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ میں پھنس گئے ہیں۔

منی پور کی آبادی ایک اندازہ کے مطابق 32 لاکھ ہے جس کے منجملہ 9 فیصد مسلمان ہیں۔ کوکیوں اور مایتیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جبکہ مسلمان دونوں طرف کی لڑائی کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں اور امن کیلئے اپیلیں کررہے ہیں۔

جب این ڈی ٹی وی ضلع بشنوپور کے موضع کواکتا میں گیا تو اس نے دیکھا کہ پولیس سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے اور وہاں فرنٹ لائن کی مارکنگ کی جارہی تھی کیونکہ اس کے پیچھے کوکی قبیلہ کا اکثریتی علاقہ چوراچاندپور واقع ہے۔ 6 اگست کو ایک باپ بیٹا سمیت تین افراد کو گولی مار دی گئی تھی وہ اس وقت ضلع بشنوپور میں اپنے دیہی مکان میں سورہے تھے۔

مایتیوں کا الزام ہے کہ چوراچاندپور کے غنڈوں نے رات میں گاؤں میں گھس کر اس خاندان پر حملہ کیا۔ اِس صورتحال کی وجہ سے کواکتا کی دو مسجدوں کو چند گھنٹوں کیلئے سکیورٹی فورسس نے استعمال کیا اور فائرنگ کی گئی۔

ضلع بشنوپور کے جمعیۃ العلماء کے صدر صلاح الدین قاسمی نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ہم نے انہیں اپنی صورتحال سے واقف کروایاجس کے بعد سکیورٹی فورسس کے لوگ وہاں سے چلے گئے۔

کواکتا ایک ہمہ نسلی علاقہ ہے جہاں کبھی مایتی اور کوکی قبائل کے لوگ پڑوسیوں کی طرح رہتے تھے۔ اس ٹاون کی 90 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

تنازعہ میں ملوث نہ ہونے کے باوجود منی پور کے مسلمان مایتیوں اور کوکیوں کے درمیان لڑائی میں پھنس گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کواکتا میں ان کی روزی روٹی متاثر ہوگئی ہے۔ اگرچہ کہ وہ اس لڑائی میں راست طور پر ملوث نہیں ہیں اس کے باوجود منی پور کے مسلمان اپنے آپ کو مایتیوں اور کوکیوں کے درمیان لڑائی میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *