نوح تشدد: بھاگتا وقت اور ختم ہوتا صبر!… ستیندر ترپاٹھی

[]

وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نوح میں گزشتہ تین سال سے سرگرم تھے اور وہاں مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے میں مصروف تھے، حالیہ تشدد اسی کا نتیجہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>نوح تشدد، فائل تصویر آئی اے این&nbsp; ایس</p></div>

نوح تشدد، فائل تصویر آئی اے این ایس

user

ہریانہ کا تنہا مسلم اکثریتی ضلع ہے نوح، جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 80 فیصد ہے اور نیتی آیوگ کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق یہ ملک کا سب سے غریب اور پسماندہ ضلع ہے۔ جولائی کے آخری ہفتہ میں یہ سُلگ رہا تھا۔

31 جولائی کو ‘جلابھشیک یاترا’ ہونی تھی اور ماحول میں کشیدگی تھی۔ میوات میں یہ سالانہ یاترا نہ جانے کب سے چلی آ رہی ہے اور کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ بلکہ میوات کے مسلمان تو اس انعقاد میں بڑے اچھے مہمان نواز تھے جو بھکتوں کو ٹھہرنے، کھانے پینے کی سہولت دیا کرتے تھے۔ روایتی طور سے یاترا میں شامل ہونے والے عقیدتمند سب سے پہلے اراولی کی خوبصورت پہاڑیوں سے ملحق نلہر واقع قدیم شیو مندر میں شیولنگ پر گنگا جل چڑھاتے ہیں اور اس کے بعد وہ وہاں سے تقریباً 50 کلومیٹر دور شری نگر واقع رادھا کرشن مندر کا رخ کرتے ہیں۔ تین سال پہلے اس انعقاد کو عظیم الشان، وسیع اور زیادہ مقبول بنانے کے منصوبہ کے ساتھ وی ایچ پی اس سے جڑی۔ وی ایچ پی نے ایک نئی ہی طرح کی کہانی کو پھیلانا شروع کیا کہ میوات وہ جگہ ہے جہاں کرشن گائے چراتے تھے اور اس علاقے کے تین مندر مہابھارت کے دور کے ہیں۔ بہرحال، کشیدگی کے موجودہ ماحول میں یہ یاد کرنا لازمی ہے کہ آزادی سے پہلے میوات کا علاقہ الور-بھرت پور رجواڑے کا حصہ رہا اور یہاں طویل مدت سے مندر-مسجد ساتھ ساتھ رہے۔

رواں سال نہ صرف فرید آباد اور پلول جیسے ہریانہ کے پڑوسی شہروں سے بلکہ راجستھان، اتر پردیش اور بہار کے عقیدتمند بھی یاترا میں شامل ہوئے۔ وی ایچ پی کا دعویٰ ہے کہ یاترا میں شامل ہونے والوں کی تعداد 15 ہزار تھی۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ‘شوبھا یاترا’ پرامن طریقے سے ختم ہوئی تھی۔ لیکن اس بار ہریانہ اور راجستھان کے وی ایچ پی اور بجرنگ دل کارکنان اشتعال انگیز پیغام اور ویڈیو پوسٹ کر رہے تھے اور میوات کے مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے طعنہ مار رہے تھے کہ انھیں اپنے ‘جیجا’ کے استقبال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

مسلم نوجوانوں جاوید اور ناصر کے قتل میں مطلوبہ اور گزشتہ دو سالوں سے آفیشیل طور پر فرار مونو مانیسر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اور اس کی ٹیم یاترا میں حصہ لے گی۔ اپنا خود کا ‘نگرانی گروپ’ بنا رکھنے والے فرید آباد کے سبزی اور پھل فروش بٹو بجرنگی نے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر پیغام پھیلایا کہ مونو مانیسر میوات میں ‘بارات’ لے کر آئے گا۔

جلوس میں تلوار لہرا رہے باہری لوگوں اور بندوقوں سے لیس شورش پسندوں نے مسلم نوجوانوں کو اکسایا جس سے وہ آپے سے باہر ہو گئے اور اس کے باوجود کہ طبقہ کے بزرگوں نے انھیں صبر رکھنے کی صلاح دی، انھوں نے بھی جو ابی آڈیو-ویڈیو پیغام جاری کیے اور دھمکی بھی دی۔

نوح سائبر سیل کے ذریعہ شیئر کی گئی 2 منٹ 50 سیکنڈ کی ایک آڈیو کلپ میں ایک دبنگ آواز میں مسلمانوں سے نلہر مندر پر حملہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ “میو بزدلوں کا طبقہ نہیں ہے اور یہ ثابت کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ اس وقت یہاں 200 ہیں۔ (انھیں) سبق سکھانے اور ایک اثر پیدا کرنے کے لیے ان میں سے کم از کم 20 کو مار ڈالو۔ سبھی لوگ شنگار مندر کے پاس جمع ہوں۔ اپنی فیملی، بچوں وغیرہ کی محبت سے باہر نکلیں کیونکہ ایک دن ہر کسی کو مرنا ہے، اس لیے اپنے طبقہ کے لیے مریں۔” واٹس ایپ پر پوسٹ کردہ ایک دیگر ویڈیو پیغام میں لوگوں کو آگاہ کیا گیا کہ وہ حملہ کرتے وقت کوئی ویڈیو شوٹ نہ کریں۔ ساتھ ہی آواز میں مایوسی کے جذبہ کے ساتھ کہا گیا ہے کہ “ویڈیو بنانے کی آپ کی عادت ایک بڑی دقت ہے۔”

میوات (نوح) میں مسلم طبقہ کے لیڈروں نے پولیس کو بدامنی پھیلنے کے اندیشہ کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کیا تھا۔ 27 جولائی کو ایک میٹنگ طلب کی گئی تھی جب افسران کو آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے دونوں سیٹ دکھائے گئے اور گڑبڑی سے بچنے کے لیے فل پروف انتظام کرنے کی گزارش کی گئی۔ لیکن ان تنبیہوں کے باوجود نوح کے ایس پی کو چھٹی پر جانے کی اجازت دی گئی اور ضلع کا چارج قریبی ضلع گروگرام کے ایس پی کو دیا گیا۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ مذہبی جلوس میں مسلح غنڈوں کو بھی شامل ہونے دیا گیا۔ اس پر بی جے پی رکن پارلیمنٹ راؤ اندرجیت نے بھی طنزیہ لہجے سے سوال کیا کہ کس مذہبی جلوس میں تلواروں اور بندوقوں کی ضرورت ہوتی ہے؟

تشدد میں دو ہوم گارڈ سمیت 6 لوگوں کی موت کے بعد ہی حکومت نے انٹرنیٹ خدمات بند کیں۔ مرنے والے 6 لوگوں میں 2 مسلم تھے۔ انٹرنیٹ خدمات کو معطل کرنے سے پہلے واٹس ایپ گروپوں نے کار میں سوار مسلح بجرنگ دل کے لوگوں اور ان کے لوکیشن کی ویڈیوز شیئر کی گئی تھیں۔ ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فرار مونو مانیسر یاترا میں حصہ لینے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے گروگرام سے نکل رہا ہے۔

جذبات مشتعل ہو اٹھنے کی وجہ سے جلوس پر پتھروں سے حملہ کیا گیا، کاروں اور موٹر سائیکلوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا، جس سے گھبرائے بھکت مندر کی طرف بھاگے اور وہاں پناہ لی۔ فیکٹ چیکر ایم ڈی زبیر نے فرید آباد کے ایک وکیل کا مندر احاطہ سے فائرنگ کی ویڈیو شیئر کی جس میں وردی پوش پولیس اہلکار خاموش کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ صاف ہے کہ ہریانہ پولیس حالات سے نمٹنے کی حالت میں نہیں تھی۔

وی ایچ پی اور بجرنگ دل مسلم اکثریتی علاقے میں بدامنی پھیلانے میں آخر کار اتنا وقت، توانائی اور پیسہ کیوں لگا رہے ہیں؟ اس کے جواب میں سماجی کارکن یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ وی ایچ پی اور آر ایس ایس سے جڑے دیگر ادارے گزشتہ کچھ سالوں سے علاقے میں جذبات بھڑکانے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ کئی موب لنچنگ میں میوات کے میووں کو نشانہ بنایا گیا جو بیشتر ڈیری کسان ہیں اور جن کے لیے مویشی روزی روٹی کا بڑا ذریعہ ہے۔ گزشتہ مہینے تک میوات میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، 1947 کی تقسیم کے دوران بھی نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ حکومت اور مرکزی وزارت داخلہ کو ممکنہ گڑبڑی کے بارے میں خفیہ جانکاری تھی۔ حالانکہ ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے ایسا کوئی اِنپٹ ملنے سے انکار کیا ہے۔ ایک اسٹنگ ویڈیو میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر کو یہ دعویٰ کرتے سنا جا سکتا ہے کہ محکمہ نے حکومت کو آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن اس بارے میں وج نے کہا کہ حکومت پتہ کرے گی کہ خفیہ جانکاری کس کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ اسی دن کئی واٹس گروپ بنائے گئے تھے۔

گزشتہ مہینے تک مسلمانوں نے سنگین اکساوے کی حالت میں بے مثال صبر کا مظاہرہ کیا۔ گالیاں، دھمکیاں، لنچنگ، بے عزتی، حکومت کے ذریعہ حوصلہ افزا بائیکاٹ، بغیر مقدمہ کے حراست میں لینا، ذریعہ معاش پر حملہ وغیرہ انھوں نے برداشت کیا۔ نوح میں فرقہ وارانہ تشدد پہلا اشارہ ہے کہ طبقہ کا صبر ختم ہو رہا ہے کیونکہ طبقہ کے بیشتر نوجوان بزرگوں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر انھیں صبر کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟

بحران میں پھنسے میوات کے لوگوں کی دلیل ہے کہ تشدد دو طبقات کے گرم دماغ والے شورش پسندوں کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھا، جن میں سبھی نوجوان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ویڈیو دیکھ لیں، آپ کو کوئی ادھیڑ عمر کا آدمی نہیں ملے گا۔ میوات میں مسلم نوجوانوں کا رد عمل بالکل مختلف ہے۔ ان میں سے ایک نے بجرنگ دل کے لیڈر مونو مانیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے میں کہا کہ “اس نے دو لوگوں کو زندہ جلا دیا اور پولیس کہتی ہے کہ وہ اسے نہیں پکڑ سکتی… اور پھر وہ ویڈیو بناتا ہے اور انٹرویو دیتا ہے اور ہمیں دھمکی دیتا ہے، اور ایسے میں ہمیں غصہ بھی نہیں آنا چاہیے؟”

جلوس پر اچانک حملے سے حیران (ظاہر طور پر، کسی کو امید نہیں تھی کہ مسلمانوں کی طرف سے اکساووں کا جواب دیا جائے گا) رائٹ وِنگ عناصر نے جلد ہی نوح سے 62 کلومیٹر دور گروگرام میں جوابی کارروائی کی۔ مسلح بھیڑ نے گروگرام کی انجمن جامع مسجد پر حملہ کیا اور اندر موجود نوجوان نائب امام محمد سعد کا قتل کر کے مسجد کو نذرِ آتش کر دیا۔ سعد (25 سال) اور اس کا بڑا بھائی مولانا شاداب 7 ماہ پہلے ہی روزی روٹی کی تلاش میں بہار کے سیتامڑھی سے گروگرام پہنچے تھے۔ وہ الگ الگ رہنے لگے۔ گروگرام میں پرائیویٹ ٹیچر شاداب بتاتے ہیں کہ حملے سے ٹھیک پہلے انھوں نے اپنے بھائی سے بات کی تھی۔ انھوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ “اس نے مجھے رات 11.30 بجے فون کیا اور کہا کہ پولیس مسجد میں ہے اور فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔” شاداب نے مزید کہا کہ “سعد اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اکثر فرقہ وارانہ خیر سگالی کو فروغ دینے والے گانے پوسٹ کرتا تھا… مارے جانے سے تقریباً ایک ماہ پہلے سعد نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا- ہے اللہ، مہربانی کر، ہندوستان کو ایک ایسی جگہ بنا دے جہاں ہندو اور مسلم ایک ہی تھالی میں کھانا کھائیں۔” بھائی نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ خود ایک دن نفرت کا شکار ہو جائے گا۔

گولف کورس کے نزدیک واقع گیٹیڈ کانڈو اور اسٹیل و شیشے کے دفاتر والے ایک مہنگے علاقے میں ہوئے اس حملے نے وہاں کے باشندوں کو حیران کر دیا ہے۔ وی ایچ پی اور بجرنگ دل احتجاجی مارچ نکال رہے ہیں اور مسلمانوں کو این سی ٹی (قومی راجدھانی علاقہ) چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ غازی آباد میں پوسٹر دکھائی دیئے جن میں لوگوں سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنا سامان ‘بھائی جان’ سے نہیں بلکہ ‘بھائی’ سے خریدیں۔

سوشل میڈیا پر ‘بھاڑے کے اداکاروں’ کو لے کر تیار کی گئی فرضی ویڈیو کا سیلاب آ گیا ہے۔ ایسے ہی ایک اشتعال انگیز ویڈیو میں پھٹے کپڑے اور انڈرگارمنٹس دکھائے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ نوح کے مندر سے بڑی تعداد میں خواتین کا اغوا کر لیا گیا اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ حالانکہ ہریانہ کی اے ڈی جی پی ممتا سنگھ نے اس طرح کی افواہوں کی تردید کی اور واضح کیا کہ مندر سے چھیڑ چھاڑ کے ایک بھی واقعہ کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود وہاں موجود تھیں۔ لیکن شرارتی یوٹیوبرس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس سے شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ سب سیاسی اقتدار کی ملی بھگت سے تو نہیں ہوا؟

پولیس نے چن چن کر مسلم ٹھکانوں کو منہدم کرنے کی مہم چھیڑ دی، اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک کہ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے مداخلت نہیں کی اور ‘بلڈوزر انصاف’ کو روک نہیں دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق این سی ٹی کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے گوداموں، دکانوں، ورکشاپ اور گھروں کو سیاہ کراس سے نشان زد کیا گیا جس سے دہشت پھیل گئی اور مسلمانوں کی ہجرت شروع ہو گئی۔

31 جولائی کو نوح میں فرقہ وارانہ تصادم شروع ہونے کے ہی دن ایک ڈراؤنا لیکن اس سے غیر متعلق حادثہ میں چیتن سنگھ نام کے آر پی ایف کانسٹیبل نے ممبئی جانے والی ٹرین میں ایک تنازعہ کے بعد اپنے قبائلی سینئر کو گولی مار دی۔ پھر وہ بغل کے ڈبوں میں گیا اور اپنی بھری ہوئی اے کے 47 رائفل سے تین بے قصور لوگوں کا گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہ تینوں مسلمان تھے۔ پھر اس نے دیگر مسافروں کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف اپنی بکواس تقریر کو ریکارڈ کرنے کو کہا اور آخر میں کہا کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہے تو انھیں ہندوتوا کے پوسٹر بوائے نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کو ووٹ دینا ہوگا۔

ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ میوات سے مسلمانوں کے ذریعہ مندروں کی حفاظت کرنے، ہندو بھکتوں کو پناہ دینے اور ان میں سے کئی کو محفوظ نکالنے کی دل چھو لینے والی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ ‘دی ہندو’ کے ذریعہ رپورٹ کی گئی ایسی ہی ایک کہانی میں حسار کے ایک ٹھیکیدار رویندر پھوگٹ اور بڈکلی سے لوٹ رہے اس کے دو ہندو دوستوں کی بات کی گئی ہے۔ پتھراؤ کر رہی بھیڑ کو دیکھ کر گھبرا کر انھوں نے پولیس کی پناہ لینے کی کوشش کی، لیکن انھیں آگے بڑھنے کے لیے کہا گیا۔ جب ان کا سامنا دوسری قاتل بھیڑ سے ہوا تو انھوں نے اپنی کار چھوڑ دی اور بھاگ کر ایک مسلم ٹرک مالک انیس کے گھر میں چھپ گئے۔ ان کی کار میں آگ لگا دی گئی اور انیس نے انھیں اگلے کئی گھنٹوں تک پناہ دی اور پھر انھیں اپنی کار میں بٹھا کر رات بھر ٹھہرنے کے لیے نوح کے پی ڈبلیو ڈی گیسٹ ہاؤس لے گئے۔ شکرگزار مہمانوں نے انیس کو حسار آنے کے لیے مدعو کیا اور اپنے فون نمبر بھی شیئر کیے۔ کچھ دنوں بعد بے چین انیس نے مدد کے لیے پکارا۔ پولیس ان کے گھر کے کچھ حصوں کو توڑنے کے لیے بلڈوزر لے کر پہنچی تھی۔ ٹھیکیدار اور اس کے دوستوں نے پولیس اور بی جے پی لیڈروں اور سرکاری افسران کو فون کر کے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انیس نے تشدد میں کوئی کردار نہیں نبھایا ہے، اس کے وہ گواہ تھے کیونکہ وہ اس کے ساتھ تھے۔ لیکن تب تک گھر کے کچھ حصے منہدم ہو چکے تھے۔

پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے اخباری رپورٹس پر دھیان دیا اور حیرانی ظاہر کی کہ کیا یہ ‘نسلی صفایہ’ تھا اور بلڈوزر کارروائی کو روکنے کا حکم دیا۔ بنچ نے ہریانہ حکومت کو بلڈوزر سے ہٹائے گئے تجاویزات کی پوری فہرست پیش کرنے اور یہ بتانے کا بھی حکم دیا کہ کیا اس میں مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا تھا اور لوگوں کو نوٹس دیئے گئے تھے؟ انیس کو تو کسی طرح کا کوئی نوٹس نہیں ملا تھا۔

ایک اور واقعہ پر دھیان دینا ضروری ہے۔ تقریباً 360 کلومیٹر دور بریلی (اتر پردیش) میں ایس ایس پی پربھاکر چودھری نے اتوار 30 جولائی کو شورش پسند کانوریوں کے خلاف محاذ تھام رکھا تھا۔ انھوں نے کانوریوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ کانوریے ایک مسجد سے گزرنے والے راستے پر جانے کی اجازت دیئے جانے کی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ ایس ایس پی نے نہ صرف لاٹھی چارج کا حکم دیا بلکہ کانوریوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا بھی حکم دیا۔ تین گھنٹے بعد ہی ان کا ضلع سے تبادلہ کر دیا گیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک ‘روٹین ٹرانسفر’ تھا۔

ہریانہ اور اتر پردیش میں ‘ڈبل انجن’ حکومتوں اور مرکزی وزارت داخلہ نے دکھا دیا ہے کہ حقوق اور طاقت کے مدلل استعمال کے معاملے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ وہ یا تو نااہل ہیں یا شراکت دار، یا پھر دونوں۔ دونوں ہی معاملوں میں فرقہ وارانہ تقسیم سے پرے، غریب ہندوستانیوں کے لیے کوئی راحت نہیں۔ وہ اس سنکی سیاست سے کہیں زیادہ متاثر ہیں جو طبقات میں خوف پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی لگتی ہے۔ کہیں یہ کوئی انتخابی اسٹریٹجی تو نہیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *