سید غلام عسکری طاب ثراہ ( عالم باعمل ، عہدساز اور انقلاب آفرین شخصیت )

 

*مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ *
( عالم باعمل ، عہدساز اور انقلاب آفرین شخصیت )

بانی تنظیم خطیب اعظم مولاناسید غلام عسکری طاب ثراہ کی شخصیت کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں کہ وہ کیا تھے کون تھے اُن کے اندر کیا خصوصیات تھیں ………
تو اس کے جواب میں ذہن میں بہت ساری خوبیوں اور اچھی صفات سے مزین ذات کا تصور پیدا ہوتا ہے
جیسے کہ آپ اپنے وقت کے زبردست خطیب تھے ، بہترین صاحب قلم اور ادیب تھے ، تنظیم اور مدیریت کی اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے ، سماجیات اور معاشرتی امور کے بے مثال نباض تھے ، قوم و ملت کے بڑے غمگسار تھے ، خدا ترس اور للٰہیت کے عملی نمونہ تھے ، آپ کو مسبب الاسباب خدا پر اس قدر بھروسہ تھا کہ وہ بھروسہ آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے درس و سبق بنتا تھا اِن سب صفات کے لکھنے کے بعد بھی میرا ذہن مطمئن نہیں ہو پا رہا کہ یہ ان کا مکمل تعارف ہے اور مجھ جیسے کم علم بے ہنر اور بے بضاعت کو کسی ایسے “ جامع لفظ “ کی تلاش باقی ہے جو بانی تنظیم کی شخصیت کا مکمل آئینہ دار ہو ،
بانی تنظیم کی حیات پر لکھنے کا حق تو وہی لوگ ادا کرسکتے تھے جو بانی تنظیم کے رفقاء کار اور ہم عصر و ہم سفر تھے کہ جن کا شب و روز آپ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا لیکن افسوس کہ ان بزرگوں میں ایک دو کے علاوہ ایک ایک کر کے سب اللہ کی بارگاہ چلے گئے ——
ہم نے بانی تنظیم کو جب دیکھا تو ابھی شعور کی ابتدائی منزلوں میں تھے اور مختصر فرصت نصیب ہوئی
لیکن وہ مختصر مدت ہمارے لیے بڑی بابرکت رہی کہ زندگی بھر جسکی روشنی دل و دماغ کے لیے ایک رہنما اور روشن چراغ کی مانند رہے گی
انیس فروری ۱۹۸۴ کو ہمارا جامعہ امامیہ میںں داخلہ ہوا اس وقت بانی تنظیم تبلیغی دورے پر تھے ایک ہفتے بعد جب آپ واپس تشریف لائے تو ہم جامعہ امامیہ کے طلبہ کو جن کی تعداد اس وقت ۹ تھی نماز ظہرین کے بعد بیت الصلوٰة میں اپنے پاس بٹھایا اور ہم دو لوگ بندہ حقیر اور مولوی بشیر نقوی صاحب سے مخاطب ہوئے اور بولے ماشااللہ کشمیر کی نمائدگی بھی جامعہ میں ہوگئ ، الحمدللہ ،
محنت سے اور سمجھ کے پڑھو
کوئی مشکل یا ضرورت ہو تو مولانا توقیر صاحب ہیں ان سے بتانا،
اس کے بعد ہم سب طلباء اور اساتذہ کو مختصر درس اخلاق دیا جو اس قدر متاثر کن تھا کہ ہم لوگ نم دیدہ ہوگئے
“ وہ منظر دل میں ایسا نقش ہوا کہ آج جب میں یہ بات تحریر کر رہا ہوں تو اس وقت بھی میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ہیں “
درس اخلاق کے بعد جب مصافحہ کیا پھر سے مجھے متوجہ کرکے بولے کیا نام ہے
میں نے اپنا نام بتایا اور بلافاصلہ ضامن صاحب مرحوم جو اس وقت شعبہ مکاتب سے متعلق امور کے انچارج تھے کی شکایت کر دی کہ میں درجہ پنجم میں کل ھند ممتاز پوزیشن پاس ہوا لیکن ضامن صاحب میرا انعام نہیں دے رہے
مسکرائے اور مجھے دفتر ساتھ لے گئے ضامن سے استفسار کیا
اس بچے کا انعام ہے وہ آپ نے نہیں دیا
ضامن صاحب نے جموں کشمیر سے امتحان رزلٹ ریکارڈ نہ پہنونچنے کی بات بتا کے انعام نہ دینے کی توجیہ پیش کی
مگر بانی تنظیم جنہیں ہم سب مولوی صاحب کہا کرتے تھے نے ضامن صاحب سے کہا کہ انہیں انعام دے دیجیے ریکارڈ آتا رہے گا
وہ وقت تو ہمارا بے شعوری کا تھا لیکن جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بانی تنظیم کس قدر کریمانہ اخلاق کے انسان تھے کہ اتنی بڑی شخصیت اتنی مصروفیت کے باوجود ہم طلبا کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی کتنا خیال رکھتے تھے
جبکہ اس دور میں نئے طلباء کا جب مدرسوں میں داخلہ ہوتا تھا تو ذمہ داران مدارس کی سخت زبانی اور انانیت بھرے رویے کی بنا پر ذمہ داران اور طلباء میں اتنا فاصلہ رہتا تھا کہ طلباء میں کسی کو اتنی ہمت و جرئت نہیں ہوسکتی تھی کہ مدرسے یا دفتر اسٹاف کی کوئی شکایت کی جائے
“ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تمہیں آئے ہوئے اور شکایت کر رہے ہو “
بانی تنظیم مجالس دینی تعلیمی ،کانفرانسوں اور ملک کی مختلف ریاستوں کی بستی بستی دوروں کی وجہ سے اکثر سفر میں رہتے تھے لیکن جب بھی واپس لکھنو آتے تو پہلے سیدھے دفتر تشریف لاتے
دفتری امور کی بررسی کرتے ،
نماز جماعت میں شریک ہوتے نماز کے بعد جامعہ امامیہ کے طلباء اساتذہ اور انسپکٹران اور دفتر کے اسٹاف کو درس اخلاق دیتے اس درس کا اختتام مصائب پر کرتے آپ کی زبان میں اتنا اثر ، درد اور اخلاص تھا کہ ہر کوئی متاثر اور گریہ کناں ہوئے بغیر نہ رہتا ،

شفقت پدری …….
جامعہ امامیہ کے طلباء کے ساتھ آپ کا برتاو سربراہ ادارہ کے بجائے ایک شفیق و مہربان باپ جیسا تھا بے انتہا محبت اور نرم دلی سے پیش آتے جب بھی آپ کا سامنا ہوتا تو دل بے چین ہوجایا کرتا تھا کہ کسی طرح سے آپ سے لپٹ جائیں ،
ہم طلباء کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ عشرہ محرم کے لیے لندن کے لیے عازم سفر ہوئے تو ہم سب طلباء کو جمع کیا درس اخلاق دیا پھر بولے ہم ایام عزاء کے سفر پر جا رہے ہیں کسی کی کوئی فرمائش …….
تو میں نے بڑی بے تکلفی سے کہا مولوی صاحب گول ٹوپی لیتے آئیے گا
“ اُس زمانے میں ھندوستان میں گول ٹوپی اچھی کوالٹی کی نہیں ملتی تھی بلکہ حاجی لوگ مکہ سے میڈ اِن چائنہ ٹوپی لایا کرتے تھے جو ہلکی اور دیدہ زیب بھی ہوا کرتی تھی “
چنانچہ میری اُس فرمائش پر ہمارے دیگر برادران نے بھی تائید کی
مولوی صاحب لندن چلے گئے
لندن سے واپس ممبئی اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں عشرے خمسے پڑھتے پڑھتے وسط ربیع الاول میں واپس لکھنو پہونچے
میں تو اس خیال میں تھا کہ اتنا طویل مدت سفر، بیرون ملک ، پھر شہر شہر کا سفر … ٹوپی لانا کہاں یاد رہا ہوگا
لیکن کمال تھا طلباء نوازی کا کہ
للھنو واپسی پر سب کو جمع کیا درس اخلاق دیا اور ٹوپی کے ساتھ ایک ایک قلم بھی عنایت فرمایا ،
آم کے سیزن میں مظفر نگر کی طرف جاتے تو مولانا محمدعلی آصف طاب ثراہ
سے ان کے باغ سے آم کی پیٹیاں لے کے آتے اور ہم لوگوں کو کھلاتے ،
کشمیر آئے تو سب کے لیے سیب لے کے گئے
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم طلبا کے ساتھ ان کا برتاو اس قدر شفقت بھرا رہتا تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے ماں باپ کی جدائی کا احساس تک نہ ہوتا تھا
نظام حوزہ میں اصلاح ۔
اُس زمانے میں مدارس دینی میں تعلیمی نظام ، ہوسٹل ، کھانے پینے اور دیگر سہولیات کے اعتبار سے حالات بڑے سخت ، تکلیف دہ اور بدحالی کے شکار تھے
بانی تنظیم مولانا سید غلام عسکری رح نے جامعہ امامیہ قائم کرکے پورے ملک کے مدارس دینی اور حوزات علمیہ کے لیے بہترین نظیر اور مثال قائم کی کہ جس کے بعد دیکھا دیکھی اکثر جگہوں کے حالات میں نمایاں تبدیلی آنے لگی
اور وہ خصوصیات یہ تھیں کہ نظام تعلیم کو اپ ڈیٹ کیا حالات اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق سلیبس کا انتخاب ،
ہوسٹل اور درسگاہ کے کلاس روم موجودہ زمانے کے مطابق جدید ڈھنگ سے بنائے جن میں روشنی اور صاف صفائی کا خاص خیال
کلاس روم میں کرسی ، ڈیسک ، میز اور بلیک بورڈ وغیرہ کا انتظام جو ہندوستان میں دینی مدارس میں پہلی بار ہوا ،
تینوں وقت ناشتہ اور کھانا
اور ایک ہی دستر خوان پر جہاں اساتذہ اور خود بھی جب دفتر میں موجود ہوتے طلباء کے ساتھ بیٹھ کے کھاتے
حوزوی دروس میں قرائت و تجوید ، ترجمہ و تفسیر ، علوم قرآن ، درس اخلاق ھندی اور انگریزی زبان کو لازمی قرار دیا
ماہانہ سہ ماہی ششماہی اور سالانہ امتحان کا نظام وضع کیا
رات میں سونے سے پہلے دن بھر کی فعالیت ڈائری میں لکھنا جو ہر روز ناظر دارالاقامہ چیک کرتے تھے
ہر مہینے طلباء کے ماں باپ اور سرپرست کو تعلیمی اخلاقی اور صحت سے متعلق رپورٹ بھیجنے کا نظام بنایا
ان سب امور کی اُس سے پہلے کوئی مثال نہیں تھی اور الحمدللہ یہ جدید نظام دیگر موجود قدیمی اور آئندہ قائم ہونے والے مدارس کے لیے نمونہ اور نظیر بنا

خوش اخلاقی کا مجسم نمونہ –
مکاتب امامیہ کے مدرسین اور پیش نماز حضرات کو وقتاً فوقتاً ادارے کی طرف سے تربیت و ٹرینگ دی جاتی ہے اُس زمانے میں ان مدرسین و پیش نماز حضرات کا تنظیم کی بلڈنگ میں ہی قیام و طعام رہتا تھا
ایک بار کا واقعہ ہے کہ دوران ٹرینگ کسی بنیاد پر تین چار پیش نماز حضرات ناراض ہوگئے اور کھانا چھوڑ دیا جسکی خبر بانی تنظیم کو ہوئی تو آپ بجائے کسی طرح کی خفگی کے ایک سینی میں کھانا رکھا اور لے کے بنفس نفیس خود اُن حضرات کے روم میں پہونچ گئے یہ منظر دیکھ کے وہ لوگ اس قدر شرمندہ ہوئے کہ اپنی ناراضگی بھول کے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگنے لگے –

بلند ہمت باحوصلہ شخصیت –

علامہ سید ذیشان حیدر جوادی طاب ثراہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خطیب اعظم کو خدا پر اس قدر پختہ بھروسہ تھا کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگوں کو اُن جیسا دیکھا
پروردگار پر بھروسے کے ساتھ بڑی ہمت و حوصلے والے انسان تھے
آپ نے بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بمبئی کے ایک مخیر جو ایک خطیر رقم ادارے کو دیتے تھے اُن کے کارو بار میں کوئی پرابلم آئی تو انہوں نے آئندہ تعاون کے لیے معذرت کرلی
انہیں دنوں ہم بھی امارات سے ہندوستان آئے ہوئے تھے جیسے ہی یہ خبر ملی تو تشویش ہوئی ملاقات پر ہم نے خطیب اعظم سے کہا کہ فعالیت میں کٹوتی کرلی جائے بجٹ نہیں ہے تو کیسے کام چلے گا تو بولے آپ کٹوتی کی بات کر رہے ہیں ہم نے تو اس سال کا بجٹ گذشتہ سال سے زیادہ بنایا ہے ہم نے کہا کیسے ہوگا بولے ہمارا کام تو ہے نہیں جن کا ( امام ع زمانہ ) کا ہے وہ جانیں
چنانچہ اللہ نے تعاون کے مزید راستے کھول دیے اور ادارے کی فعالیت دن بدن بڑھتی گئی

نفسیات اور سماجیات کے ماہر –

علامہ جوادی طاب ثراہ اکثر نجی بیٹھکوں اور مجالس میں فرمایا کرتے تھے کہ غلام عسکری صاحب عوامی نفسیات اور سماجی امور میں بے مثال انسان تھے
سماج میں پائی جانے والی خرابیوں کو بڑی آسانی سے بھانپ لیا کرتے تھے اور پھر ان خرابیوں کو دور کرنے کی بڑے سیلقے سے تحریک چلاتے تھے ۔
لوگوں کی نفسیات کے علم کی مہارت کا عالم یہ تھا کہ
ایک بار مظفر پور بہار مجلس پڑھ کے ٹرین کے جنرل کوچ میں بیٹھکر کانپور میں حسین ڈے پروگرام پہونچے جون کا مہینہ تھا شدید گرمی سفر کی تکان الگ اور مومنین نے گھیر رکھا تھا کوئی دینی مسئلہ کوئی مکتب تو کوئی اپنے علاقے کے مسائل لیے ……. جب بہت دیر ہوگئی اور پیر پھیلانے کی جگہ تک نہ ملی تو ہم نے غلام عسکری صاحب سے کہا لگتا ہے اب آرام تو دور پیر پھیلانا بھی نہ ملے گا تو آپ بولے ابھی انتظام کرتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں
اور ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے تھوڑا بلند آواز میں بولے علامہ ذرا چندے والا رجسٹرتو نکالیے.
یہ سننا تھا کہ مومنین کرام ایک ایک کرکے چلتے بنے اور مولانا مسکرا کے ہم سے بولے اب آپ چین سے سو جائیے
اب کوئی نہ آئے گا

تحمل مزاج اور بردبار انسان –

ہندوستان میں بسنے والے شیعوں میں جہالت تو پہلے ہی تھی تقسیم کے بعد شیعوں کی جو کچھ پڑھی لکھی تعداد تھی ان کی اکثریت بھی پاکستان چلی گئی یہاں رہ جانے والے گونا گوں مسائل سے دوچار ہوتے گئے اور اکثر جگہوں پر شیعہ اپنی شناخت تک کھو چکے تھے
چند ایک خانوادے قوم پر مسلط تھے
اور اُن کی ساری فعالیت قوم کی جہالت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے علاوہ کچھ نہ تھی
خطیب اعظم نے جب تحریک تعلیم و دینداری کا آغاز کیا تو انہیں اپنی دکانوں ڈیوڑیوں کی فکرلاحق ہوگئی کہ قوم میں تعلیم اور بیداری آ جائے گی تو ہمارا کیا ہوگا
بس کیا تھا کہ اپنی کھوکھلی شخصیت اور منافع کو بچانے کے لیے خطیب اعظم اور آپ کے رفقاء کے خلاف ایک محاذ بنالیا گنہونے اور بے بنیاد الزامات لگانا شروع کر دیے
حد ہوگئی جن غلام عسکری نے قوم اور اس کے بچوں کو چہاردہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی ، سوانح حیات ان کے تعلیمات اور اُن کا دین سیکھایا ملک کے گوش و کنار میں جلوس ہائے عزاء کا آغاز کروایا
ان غلام عسکری پر دشمن اہلبیت ع اور دشمن عزاء جیسے غلیظ الزام اور بہتان لگائے
مجلہ تنظیم میں چھپے آیت اللہ خوئی طاب ثراہ سے کیے گئے کسی عالم دین کے سوال کے جواب کو بنیاد بنا کر ایسی بدتمیزیاں اور بے ہودگیاں ہونے لگیں کہ خدا کی پناہ
ان سب غلیظ حرکات کے باوجود قوم کو انتشار سے بچانے کے لیے آپ ہر طرح کی محاذ آرائی سے گریزاں رہے
ان بے جا مخالفین کو صلح و مصالحت کی دعوت دیتے رہے ،
اسی غرض سے مولانا کلب عابد طاب ثراہ کے شریعت کدہ پر میٹنگ رکھی گئی جس میں آپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس بے وجہ کے اختلاف و انتشار کو ختم کیا جائے لیکن چونکہ نیتوں میں کھوٹ تھی ان مخالفین کو کسی طرح کی کوئی مصالحت کرنا ہی نہیں تھی بلکہ اس میٹنگ میں موجود ایک عالم نما بدنام زمانہ بد انسان “ جس کا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا گھر بھر فرضی اداروں کے نام پر افریکہ اور گلف سے لائی گئی رقوم سے پروان چڑھا تھا ، جو ایک بڑے یتیم خانے کو چٹ کر گیا ہو جس کے بھاری اور فربہ جثے کا رووآں روآں چیخ چیخ کے حرام خوری کی گواہی دیتا ہو “ نے آپ کی شان میں گستاخی اور نہایت درجہ بدتمیزی کی
مگر خطیب اعظم نے بڑے حوصلے اور صبر سے کام لیا کوئی جواب تک نہ دیا ،
اس موقعہ پر خود آقائے شریعت مولانا سیدکلب عابد رح نے بھی شاید اس غلیظ انسان کی غلاظت کے خوف سے خاموش رہنے ہی میں عافیت جانا اور خاموش رہے
——————-
اب بات آگئی ہے تو یہ بھی واضح کردیا جائے کہ
عقیدے کے ان نام نہاد خود ساختہ ٹھیکداروں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو مولانا غلام عسکری کی علمی ، ادبی، انتظامی صلاحیتوں سے بھرپور شخصیت اور آپکی خطابت و قلم کے مقابل ٹک پاتا
خطیب اعظم اگر اُس محاذ آرائی کا جواب دینا چاہتے تو ان کے پاس ہر میدان کے روزگار زمانہ شخصیات بھی موجود تھیں
ایک طرف علامہ جوادی جیسا دریائے علم و قلم تھا تو میدان خطابت و مناظرے میں نابغہ عصر رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین جیسا نڈر بہادر مجاھد کے علاوہ ایک پوری جماعت تھی جوعلم و ادب اورآسمان خطابت و شاعری کے روشن ستارے تھے
اقدار دین اور انتشار قوم آڑے نہ ہوتے تو مخالفین کی دھجیاں اڑا دتیے
————-
دنیا نے دیکھا کہ خود ساختہ عقائد کے اِن
ٹھیکداروں نے کوئی بنیادی کام نہ کیا ، ان ساٹھ سال کے دوران
مناظرہ ، عقائد ، تاریخ ، عزاداری پر وہابیوں کے اعتراضات کے جوابات
قرآن ، احادیث وغیرہ پر ۹۰ در صد علمی اور قلمی خدمات مولانا غلام عسکری اور اُن سے وابستہ افراد نے انجام دیے
عقیدے کے اِن خود ساختہ ٹھیکیداروں نے منبر کے تقدس کو پامال کرنے ، منبر کی سطح علمی کو گرانے ، فرضی نکتے بنا بنا کے قوم کو الجھانے
قوم میں نفرت کا ماحول بنانے
علماء اور مراجع کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے ، اور قوم کے جاہل اور بے شعور افراد کو علماء و مراجع کی شان میں گستاخی کرنے کی جرئت دینے کے علاوہ کام ہی کیا کیا ہے

مظلوم شخصیت ۔
کسی انسان کا طرہ امتیاز ظلم نہیں بلکہ مظلومیت ہوتا ہے ، مظلومیت انسانیت کا کمال ہے
بانی تنظیم اپنے وقت کے بڑے مظلوم انسان تھے شرارتی اور نالائق و نکمے لوگوں نے آپ پر نا روا تہمتیں لگائیں
اُن بے بنیاد الزامات اور ناروا تہمتوں کی ایک طویل فہرست ہے فی الحال بس دو کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے
ایک عالم جو خود کرپشن میں ڈوبا ہوا اور میرٹھ کے ایک جانے مانے ، بے ایمان وقف خور، زمین مافیا کا معین و ہمکار تھا اُس نے مرحوم و مغفور مولانا شبیہ الحسن شبن کرالی الہ باد جنکی سکونت لندن میں تھی کو خط لکھا کہ غلام عسکری نے تنظیم کی بہت بڑی رقم اپنے ذاتی اکاوںٹ میں جمع کر رکھی ہے گویا تنظیم کا پیسہ غبن اور ہڑپ کر رکھا ہے
جبکہ دنیا جانتی ہے کہ بانی تنظیم نے اپنی ذاتی پراپٹی اور سب کچھ ادارہ تنظیم پر قربان کردیا تھا ایک روم کچن پر مشتمل چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہتے تھے معمولی لباس جس پر پیوند لگے رہتے تھے
تھرڈ کلاس سواری ٹرین میں اکثر جنرل ڈبے میں سفر کرتے ،
مفکراسلام مولانا کلب صادق صاحب طاب ثراہ نے بھی بانی تنظیم کے ایصال ثواب کی مجلس میں پڑھا تھا کہ مرحوم بڑے مظلوم تھے لوگوں نے اُن پر بے سر و پیر بہتان لگائے ۔ جموں کشمیر علاقے کے رہنے والے ایک صاحب علی گڑھ میں ملے جو غلام عسکری صاحب پر ایسے ایسے الزام لگا رہے تھے کہ جن کا دور دور تک مرحوم سے کوئی تعلق نہ تھا اُن الزامات میں ایک الزام تو یہ تھا کہ غلام عسکری خود تو بڑی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں لیکن خود کی بیٹیاں بے پردہ رہتی ہیں اور ایسے ہی بازاروں میں گھومتی رہتی ہیں تو میں نے اُن سے کہا آپ نے کسی اور غلام عسکری کے لیے یہ سب باتیں سُنی ہوں گی تنظیم المکاتب کے سکریٹری غلام عسکری صاحب کے تو کوئی بیٹی ہے ہی نہیں”
پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپ کی روح و قبر پر اپنی رحمتوں کی بارانی فرمائے اور جوار چہاردہ معصومین علیہم السلام میں اعلی علیین میں درجات عالی نصیب کرے

سید کرامت حسین جعفری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *