تقریباً2دہائیوں میں پہلی بار کے سی آر خاندان انتخابات سے دور

[]

حیدرآباد: تقریباً دو دہائیوں میں پہلی بار تلنگانہ کے سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا خاندان، لوک سبھا الیکشن کے میدان سے دور ہے۔ ریاست میں 13مئی کو منعقد شدنی پارلیمانی انتخابات میں ٹی آر ایس کے بانی کے خاندان کے ایک بھی فرد نے پرچہ نامزدگی داخل نہیں کیا ہے۔

2001 میں ٹی آر ایس (اب بی آر ایس) کی تشکیل کے بعد سے پہلی بار کے سیآر کا خاندان، انتخابی مقابلہ سے دور ہے۔ 2004 سے سابق چیف منسٹر پارٹی کے خاندان کے افراد نے ہر اسمبلی اور لوک سبھا الیکشن لڑتا آیا ہے۔ کے سیآر جنہوں نے علیحدہ تلنگانہ تحریک کو بحال کرنے کیلئے ٹی ڈی پی سے استعفیٰ دے کر ٹی آر ایس کی داغ بیل ڈالی تھی، نے حلقہ لوک سبھا کریم نگر اور حلقہ اسمبلی سدی پیٹ سے الیکشن لڑا تھا۔

 وہ، دونوں حلقوں سے منتخب ہوگئے تھے مگر پارلیمنٹ میں جانے اور یو پی اے حکومت میں وزیر بننے کیلئے کے سی آر نے حلقہ اسمبلی سدی پیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

 سدی پیٹ اسمبلی حلقہ کے ضمن الیکشن میں کے سی آر نے اپنے بھانجے ہریش راؤ کو کھڑا کیا اور وہ جیت گئے۔تلنگانہ مسئلہ پر کانگریس سے اختلافات کے بعد کے سی آر کی وجہ سے2006 اور 2008 میں ضمنی الیکشن ہوئے دونوں بار کے سی آر نے حلقہ لوک سبھا کریم نگر کی نشست برقرار رکھی۔

2009 میں کے سی آر نے حلقہ لوک سبھا محبوب نگر سے کامیابی حاصل کی۔ اس میعاد کے دوران کے سی آر نے علیحدہ تلنگانہ تحریک کو بام عروج پر پہونچایا اور آخر کار علیحدہ ریاست کے قیام کے نشانہ کو حاصل کرلیا۔ کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند کے ٹی آر نے 2009 کے الیکشن میں حلقہ اسمبلی سرسلہ سے اپنے انتخابی سفر کا آغاز کیا۔

 کے ٹی آر نے 2010 کے ضمنی الیکشن میں بھی حلقہ اسمبلی سرسلہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔2014 کے الیکشن میں کے سی آر نے حلقہ لوک سبھا میدک اور حلقہ اسمبلی گجویل سے مقابلہ کیا اور دونوں حلقوں سے وہ منتخب ہوئے۔

 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں بی آر ایس کو اکثریت ملنے کے بعد کے سی آر نے حلقہ لوک سبھا میدک سے استعفیٰ دے کر تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر بن گئے۔اسی الیکشن میں کے سی آر کی دختر کو یتا، حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے منتخب ہوگئیں۔

 کے چندر شیکھر راؤ کے فرزند اور ان کے بھانجے2014 کے اسمبلی انتخابات میں بالترتیب سرسلہ اور سدی پیٹ سے دوبارہ منتخب ہوگئے اور یہ دونوں، کے سی آر کی کابینی وزیر بن گئے۔

2018کے اسمبلی انتخابات میں جہاں ٹی آر ایس تلنگانہ میں دوبارہ برسر اقتدار آئی وہیں کے کویتا کو حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے شکست کا سامنا کرناپڑا۔ بی جے پی کے ڈی اروند نے انہیں شکست دی تھی۔ بعدازاں کویتا کونسل کیلئے منتخب ہوگئیں۔

 2022 میں کے سیآر نے قومی سیاست میں داخلہ کیلئے پارٹی کے نام کو ٹی آر ایس سے بی آر ایس میں تبدیل کردیا۔ ریاست پر10 سال تک حکمرانی کرنے والی بی آر ایس کو 2023 کے اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس برسر اقتدار آگئی۔

 کے سی آر نے گجویل اور کاماریڈی سے مقابلہ کیا مگر انہیں حلقہ اسمبلی کاماریڈی سے بی جے پی امیدوار کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑی کہا جاتا ہے کہ 1985کے بعد سے کے سی آر کی یہ پہلی ناکامی تھی۔ گزشتہ سال منعقدہ اسمبلی الیکشن میں ہریش راؤ اور کے ٹی آڑ نے کامیابی حاصل کیں۔

کویتا نے حلقہ لوک سبھا نظام آباد سے مقابلہ نہ کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ آخر کار کے سی آر نے حلقہ نظام آباد سے کویتا کو ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ .ایسی قیاس آرائیاں کی گئی کہ کے سی آر میدک یاملکاجگری حلقہ جات لوک سبھا سے مقابلہ کرنے والے ہیں مگر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے سی آر نے ریاست کی سیاست پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *