تعلیمی اداروں میں حجاب کی اجازت ہونی چاہئے: وائس چانسلر جے این یو

[]

نئی دہلی: جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کی وائس چانسلر شانتی شری ڈی پنڈت نے کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہب‘ زبان اور لباس کی یکسانیت نہیں چل سکتی کیونکہ یہ ملک کسی مخصوص فرقہ کا نہیں ہے۔

پی ٹی آئی ہیڈکوارٹرس نئی دہلی میں ایجنسی کے ایڈیٹرس کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو انفرادی پسند کا احترام کرنا چاہئے۔ حجاب پہننے والوں کو پہننے دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں مذہب‘ نسل یا زبان کے معاملہ میں یکسانیت سے اتفاق نہیں کرتی۔ ایک زبان مسلط نہیں کی جانی چاہئے۔

 اگر بعض لوگ بعض ریاستوں میں سرکاری زبان ہندی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن جنوب میں یہ مشکل ہوگا۔ مشرقی ہند یہاں تک کہ مہاراشٹرا میں میں نے نہیں سمجھتی کہ ہندی قابل ِ قبول ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہندی بحیثیت زبان ہوسکتی ہے لیکن میں نہیں سمجھتی کہ واحد زبان تھوپی جائے۔

 نہرو اور اندراگاندھی بے وقوف نہیں تھے جنہوں نے سہ لسانی فارمولہ کی بات کہی تھی۔ ہندوستان میں یکسانیت کسی بھی شکل میں نہیں چل سکتی۔ وائس چانسلر اس سوال کا جواب دے رہی تھیں کہ ہندی کو قومی زبان بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ زبان حساس مسئلہ ہے۔ اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گی کہ واحد زبان کے معاملہ میں تیزی نہیں دکھانی چاہئے۔ شانتی شری ڈی پنڈت نے کہا کہ ملک میں واحد شناخت اور واحد مذہب نہیں چل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ کوئی ایک مذہب یہاں چلے گا لیکن اربابِ اقتدار ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طورپر ہمیں ان سب سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ ہمارے نزدیک علم حاصل کرنا اہم ہے۔ ملک کسی مخصوص فرقہ کا نہیں ہے۔ ہمہ لسانی ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ہر کسی کو کئی زبانیں آنی چاہئیں کیونکہ ہندوستان میں ہمیں ثقافتی تنوع کا جشن منانا چاہئے۔ سبھی زبانیں اچھی ہیں۔

 میں کسی بھی زبان کے خلاف نہیں ہوں لیکن میرے لئے آسانی انگریزی زبان میں ہے۔ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کے بارے میں پوچھنے پر انہو ں نے کہا کہ یہ انفرادی پسند ہونی چاہئے۔ میں ڈریس کوڈ کے خلاف نہیں ہوں۔ میری رائے میں تعلیمی ادارے کھلے ہونے چاہئیں۔

 اگر کوئی لڑکی حجاب پہننا چاہتی ہے تو یہ اس کی پسند ہے اور اگر کوئی پہننا نہیں چاہتی تو اس پر اسے تھوپنا نہیں چاہئے۔ جے این یو میں شارٹس جیسا مغربی لباس پہننے والے بھی مل جائیں گے اور روایتی لباس والے بھی دکھائی دیں گے۔ یہ ان کی اپنی پسند ہے۔ یہ لوگ جب تک اسے مجھ پر نہ تھوپیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

 2022میں کرناٹک میں حجاب تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ وائس چانسلر جے این یو نے زور دے کر کہا کہ غذا اور لباس انفرادی پسند کا معاملہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے ہندوستانی نظام ِ تعلیم میں مختلف ثقافتی تواریخ کی نمائندگی میں توازن پر زور دیا۔

 انہوں نے کہا کہ تاریخ ہند میں 200 سال سے بھی کم حکمرانی کرنے والے مغلوں کو 200 سے زائد صفحات میں جگہ ملی ہے۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔ انہیں ان کی جگہ دیجئے لیکن دنیا میں طویل حکمرانی کرنے والے چولا راجاؤں کو بھی ان کا مستحقہ مقام ملنا چاہئے۔ چولا راجاؤں کے لئے نصف صفحہ تک نہیں ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *