سیاسی جماعتیں ہمیں نظر انداز کر رہی ہیں، علی گڑھ کے اقلیتی رائے دہندوں کا احساس

[]

علی گڑھ: علی گڑھ میں انتخابی مہم دھیمی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی کورسپورٹ بیس یعنی مسلم فرقہ پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ بعض مسلمان اس لوک سبھا الیکشن کو ملک کی تکثیریت کیلئے فیصلہ کن سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کا احساس ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو نظراندازکرتی ہیں۔

علی گڑھ پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی تعدادقابل لحاظ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق علی گڑھ شہر میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ مغربی یوپی کے اس تالہ مرکز میں 40 فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ڈرائیور45 سالہ شاداب خان کا کہنا ہے کہ میرے لئے یہ الیکشن دستور کے تحفظ کا الیکشن ہے جو مجھے اور ملک میں ہرکسی کو مساوات کا حق دیتا ہے۔

علی گڑھ کے کئی مسلمانوں کا یہی احساس ہے۔ شہر کی شمشادمارکٹ کے ایک ہوٹل ورکرسیدعامر نے اس الیکشن کو ہندوستان میں تکثریت کی بقاء کا معاملہ قراردیا۔ اس نے کہا کہ اگر ہم نے اس بار ووٹ نہ ڈالا تو ہم یہ موقع ہمیشہ کیلئے گنوادیں گے۔ مسلم رائے دہندوں میں ناراضگی کا احساس بھی ہے۔

علی گڑھ کی سیول لائنس کے محمدشیراز کا احساس ہے کہ سیاسی جماعتیں ہمیں نظراندازکرتی ہیں۔ اس نے کہا کہ برسرِاقتدارجماعت کو ہمارے ووٹوں کی ضرورت نہیں اور اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ مسلمانوں کے پاس انہیں ووٹ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ الیکشن کو چند دن رہ گئے ہیں لیکن کوئی بھی پارٹی ورکر ہمارے پاس نہیں آیا ہے‘ امیدواروں کی بات چھوڑئیے۔ علی گڑھ میں انتخابی مہم دھیمی ہے۔ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے امیدوار مخصوص گروپس پر توجہ مرکوزکئے ہوئے ہیں۔

بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم تاجربرادری کی تائید حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ بنیابرادری بی جے پی کی روایتی ووٹررہی ہے جبکہ سماج وادی پارٹی کی توجہ جاٹ مواضعات پر ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ایک عہدیدار نے پی ٹی آئی سے کہا کہ ہمارا اتحاد علی گڑھ میں ہندومسلم اتحاد کیلئے ہی لڑرہا ہے۔

امتحانات کے دوران جس طرح آپ مشکل مضامین پرزیادہ توجہ دیتے ہیں اسی طرح ہم‘ وہی کررہے ہیں لیکن مسلم فرقہ کی فلاح وبہبود ہمارے دلوں میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے کہا کہ اکثریتی فرقہ کے ووٹوں کو یکجاکرنے کے موجودہ ماحول میں اقلیتی رائے دہندوں کو اکثر یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ بے اثر ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی نابرابری‘ اورمذہبی تکثیریت نظرانداز ہورہے ہیں۔

کئی سال سے ہندو ووٹوں کو متحد کیاجارہا ہے۔ بات اب مسلمانوں کی نہیں رہی۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ہندو رائے دہندوں کو جھکاؤ ہندوتوا کی طرف ہوتا ہے یا کثرت میں وحدت اور روادارہندودھرم کی سمت ہوتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ غربت‘ بے روزگاری‘ معاشی نابرابری جیسے مسائل پر ووٹ دیتے ہیں یا مذہبی بالادستی کے واحد مسئلہ پر۔ پروفیسر سجاد نے کہا کہ یہ فیصلہ آخرکاراکثریتی فرقہ کو کرنا ہے۔

10 تا12 فیصد کی اقلیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ جاتی۔ فیصلہ ہندوؤں کو ہی کرنا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کی بڑی ریسیڈینشیل یونیورسٹی ہے۔ ڈاکٹرافتخاراحمدانصاری جیسے ماہرتعلیم کے بموجب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کی سیکولر اقدار کی امین ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے کبھی بھی قدامت پسند بلاک کے طور پرووٹ نہیں دیا جیسا کہ ان پر لیبل چسپاں کیاجاتا ہے۔ انہوں نے اجتماعی ووٹنگ کبھی بھی نہیں کی۔

پروفیسرسیدعلی ندیم رضوی نے بھی ایسا ہی احساس ظاہرکیا اور کہا کہ علی گڑھ میں ایک بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جسے ملک دشمن‘قوم دشمن کہاجاسکتا ہو۔ یہاں کے مسلمان اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اپنے حقوق کی بات کرناملک دشمنی نہیں ہوتا۔ علی گڑھ میں مرحلہ دوم کے تحت26اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *