’’صرف دو منٹ…‘‘

[]

حمید عادل

’’ صرف دو منٹ‘‘…یہ وہ جادوئی اور کثرت سے ادا کیا جانے والا مختصر سا جملہ ہے جو ہمیں حیدرآباد میںہر جگہ ، ہر وقت اور ہر موقع پر سننے کو ملتا ہے۔چمن بیگ کے ’’دو منٹ ‘‘عموماً گھنٹوں اور کبھی کبھی تودنوں پر مشتمل ہوا کرتے ہیں ۔ جب کبھی ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارا انتظار کررہے ہیں تو ہمیں ان کاروایتی جواب ملتا ہے : صرف دو منٹ میں حاضر ہوتا ہوں اور ہم تاڑ لیتے ہیں کہ موصوف دو گھنٹے سے قبل ظاہر نہیں ہوں گے… بہرحال!ہم تواسی میں اپنی خیر مناتے ہیں کہ ہم سے کبھی چمن بیگ نے دو گھنٹے میں آنے کا وعدہ نہیں کیا ، ذرا سوچیے تو ان کے دو منٹ گھنٹوں پر مشتمل ہوا کرتے ہیں تو پھر ان کے دو گھنٹے کا عالم کیا ہوگا؟
دو منٹ‘‘ چمن بیگ کی نس نس میں سما چکے ہیں… جب احتیاط علی محتاط نے بجلی کے بل سے متعلق بلبلا کر شکایت کی تو چمن فوری چہک اٹھے :دو منٹ کے لئے پنکھا چلاؤاور پھر بند کر دو، پنکھا ایک منٹ فری گھومے گا،اس طرح بجلی کا بل کم آئے گا …
’’صرف دو منٹ‘‘حیدرآباد ہی میں نہیں دنیا کے گوشے گوشے میںوقتاً فوقتاً لگایا جانے والا مقبول عام نعرہ ہے ۔ ’’ خبریں صرف دو منٹ میں ‘‘کے زیر عنوان تو دنیا بھر کے کئی ٹی وی چینلس نے باقاعدہ اپنا پروگرام بنا رکھا ہے ،جس کے تحت ناظرین صرف دو منٹ میں دنیا بھر کی خبریں دیکھ لیتے ہیں ۔
جو لوگ کرکٹ ، فٹ بال یا پھر ہاکی دیکھتے ہیں، وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ان کھیلوں کے آخری ’’دو منٹ ‘‘ عموماً نہایت سنسنی خیز ہوا کرتے ہیں ۔کچھ حضرات تو سارا میچ دیکھنے کے بجائے محض آخری کے دو منٹ کا میچ دیکھ کر کھیل کے سارے مزے لوٹ لیتے ہیں ۔ جہاں گھنٹوں جاری رہنے والے میچ کا نچوڑ دو منٹوں میں سمٹ جاتا ہے ، وہیں گھنٹوں کا تناؤ ’’ صرف دو منٹ‘‘ میں دور کیا جاسکتا ہے ۔ جی ہاں !سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ ہے تو سکون سے بیٹھ جائیں اور تین طویل سانسیں اندر کو کھینچیں ، اس طرح ’’صرف دو منٹ‘‘ میں ہمارا ذہن مسائل سے آزاد ہو جائے گا اور ہمیںکافی حد تک سکون نصیب ہوگا ۔ طبی تحقیق کا کہنا ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والے اگرہر آدھے گھنٹے میں صرف دو منٹ کے لیے کھڑے ہوجائیں یا پھر چہل قدمی کریں تو وہ ذیابطیس کے خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بے چین کردینے والی بیماری کے ذکر پر ہمیں چین یاد آگیا، ستمبر 2011ء کی ایک اطلاع کے مطابق چین میں ہر دو منٹ بعد ایک فرد بے چین ہوکرخودکشی کی کوشش کیا کرتا تھا…اب وہاں کے کیا حالات ہیں ہمیں نہیں پتا لیکن یہ تو پتا چل چکاہے کہ چین کے لوگ بھی کس قدر بے چین ہوا کرتے ہیں ۔
جب بات ’’ دو منٹ‘‘ کی چل پڑی ہے تو پھر کیوں نہ دو منٹ کی میگی کا ذکر بھی ہوجائے۔ٹی وی اشتہار میں ’’بڑی غضب کی بھوک لگی، میگی چاہیے مجھے ابھی‘‘ کے پرجوش نعرے پر ماں مسکرا کر کہتی:
’’ صرف دو منٹ ‘‘
میگی کا یہ اشتہار بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی متاثر کرگیا تھا اوروہ بھی دو منٹ کی میگی خوب کھانے لگے تھے لیکن جب میگی میں سیسے کی زائد مقدار کے اشارے ملے تو’’ دو منٹ‘‘ کا وہ اشتہارایسے غائب ہوگیا جیسے یہ بھکاری…
بھکاری نے کسی گھرپر آواز دی، ایک خاتون باہر نکلیں اور ’’ دو منٹ‘‘ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئیں ،جب وہ دوبارہ گھر کے باہرنمودارہوئیںتو بھکاری غائب تھا۔
بتائیے کیوں؟
کیوں کہ ’’ دو منٹ ‘‘ کاجواب سن کر بھکاری سمجھ بیٹھا کہ وہ اسے میگی نوڈلس دینا چاہتی ہیں!
جب میگی کا چلن عام تھا تو چمن بیگ ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے گئے۔ ان سے پوچھا گیا:اگر دو منٹ کے لیے آپ کو پی ایم بنا دیا جائے تو آپ کیا کریں گے؟
چمن بیگ :میں میگی نوڈلس بناؤں گا۔
انٹرویو نگار: وہ کیوں؟
چمن بیگ: کیونکہ دو منٹ میں تو صرف میگی ہی بنا سکتے ہیں ۔
انٹرویو نگار( ہنس کر): اگر پانچ سال کے لیے بنا دئیے جاؤ تو؟
چمن بیگ : میں پانچ سال کے لیے پی ایم نہیں بنوں گا!
انٹرویو نگار( حیرت سے ):وہ کیوں ؟
چمن بیگ (سادگی سے): اتنی میگی کون کھائے گا؟
حیدرآباد میں ’’ دو منٹ‘‘ ہی نہیں ’’ ایک منٹ‘‘ اور ’’ پانچ منٹ‘‘ کے نعرے بھی خوب لگائے جاتے ہیں …البتہ کسی کے ’’ دو منٹ‘‘ کسی اور کے ’’ پانچ منٹ‘‘ پر بھاری بھی پڑ سکتے ہیں ۔ خدارا! آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ’’ صرف دو منٹ‘‘ کہنے والا ’’ صرف پانچ منٹ‘‘ کہنے والے دوست سے جلدی آجائے گا۔ بلاشبہ یہ وعدہ خلافی ہے اور ہم نے اس قبیل کی وعدہ خلافی کو اپنی عادت بنا ڈالا ہے لیکن اب اس کو کیا کیجیے کہ کسی شاعر کا کہنا ہے :
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہوجاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا
سنا ہے کہ ایک تاجر نے آخری وقت اپنے لڑکے کو نصیحت کی کہ زندگی میں کامیابی کے لیے دو کام بڑے اہم ہیں ۔لڑکے نے پوچھا : وہ کونسے؟ جواب ملا: پہلا یہ کہ جب تم کسی سے وعدہ کرو تو اسے پورا کرو ، نفع نقصان کی پرواہ مت کرو۔ لڑکے نے پھر سوال کیا: اور دوسرا؟ تو تاجر نے جواب دیا:دوسرا یہ کہ تم کسی سے وعدہ ہی نہ کرو!
مذہب اسلام میں وعدے کی بڑی اہمیت ہے لیکن ہمارے وعدے تونام نہاد نیتاؤں کے وعدے بن کر رہ گئے ہیں۔ وعدوں سے متعلق سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے وعدوں کے ساتھ انشاء اللہ بھی جوڑ دیا ہے اور اگر ہم کسی کو اس کا وعدہ یاد لائیں تو جواب ملتا ہے : میں نے تو انشا اللہ کہہ دیا تھا۔ایسا کہتے ہوئے ہم ذرا نہیں سوچتے کہ انشا اللہ کہہ کر ہم آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔حالیؔ نے شاید ان ہی حالات کے پس منظر میں کہا ہوگا:
جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
’’صرف دو منٹ‘‘ کے پس منظر میںمشکوک حیدرآبادی کا کہنا ہے کہ اگر آپ بہترین قلمکار بننا چاہتے ہیں تو’’ صرف دو منٹ‘‘ نکالیں اور صرف دوجملے لکھنے سے ابتدا کریں، گھنٹے بعد ہوش آئے گا تو دو صفحے کالے ہو چکے ہوں گے۔ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی ہو تو ’’صرف دو منٹ‘‘ نکالیں، ایک آدھ صفحہ پڑھنے کے لئے، پتا بھی نہیں چلے گا اور آدھا گھنٹہ گزر جائے گا…بہت سارے ایسے اچھے اور نیک کام ہیں جنہیں ہم کرناہی نہیں چاہتے لیکن اگر ہم ابتداء میں ان کاموں کے لیے صرف ’’دو منٹ‘‘ ہی دیں تو پھرممکن ہے کہ وہ کام ہماری عادت بن جائیں … لیکن اس کو کیا کیجیے کہ سوشیل میڈیا پر گھنٹوں تباہ کردینا ہماری عادت بن چکی ہے …
ایک گروپ میں لڑکی کی پوسٹ آئی…
’’ہیلو فرینڈز ، میں یہ گروپ چھوڑ کے جا رہی ہوں ،اگر میری کوئی بات کسی کو بری لگی ہو تو سوری … پہلا ہمدرد فوراً بولا:اوہ ، کیا ہوا کیوں جارہی ہو؟دوسرا ہمدردایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بولا: پلیز مت جاؤ ، گروپ کی رونق ہی آپ سے ہے۔
ایک شوقین نے پروفائل چیک کرنے کےبعد پوچھا:تصویر میں تو آپ بہت ہنس مُکھ نظر آرہی ہیں ، پھر یہاں اتنا غصہ کیوں؟
گروپ ایڈمن کی انٹری ملاحظہ کریں:
میں اس گروپ کا ایڈمن ہوں ، اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتائیے میں دو منٹ میں اس کو نہ صرف گروپ سےنکال دوں گا بلکہ اس کی آئی ڈی بھی ہیک کرلوں گا۔
غرض یہ کہ کئی لوگوں کی لڑائی ہوئی، کچھ نے گالم گلوچ کی، کچھ تو لڑکی کی حمایت میں اتنا آگے نکل گئے کہ ایک دوسرے کو گھر سے اٹھوانے کی دھمکیاں تک دے ڈالیں…اب ذرا کہانی کا The End ملاحظہ کریں…پانچ سو سے زائد کمنٹس کے بعد، پوسٹ کرنے والی لڑکی کا کمنٹ…
’’تم سب کے سب گدھے هو ، میں تو صرف دو منٹ کے لیے محظوظ ہونا چاہتا تھا…میں لڑکی نہیں ہوں…‘‘
دوستو! کسی اہم شخصیت کی برسی یا پھر کسی سانحہ کے موقع پر’’ دومنٹ ‘‘کی خاموشی منائی جاتی ہے ۔ ماضی میںتوجیسے ہی مقررہ وقت پر خصوصی سائرن بجتا ،زندگی گویامنجمد ہوکر رہ جاتی، یعنی جو جہاں ہوتا وہ وہیں کھڑا ہوجاتا ۔ اسی پس منظر میں ٹوئٹر پرکسی نے بڑا ہی دلچسپ ریمارک کرڈالا: ’’دو منٹ کی خاموشی ،دو منٹ کی میگی کے لیے !‘‘
ہم نہیں جانتے کہ مرنے والوں کی یاد میں ’’ دو منٹ‘‘ کی خاموشی کا چلن کب اور کس نے شروع کیا لیکن ہمیں اس خاموشی میں موت کی خاموشی کا اشارہ ضرورملتا ہے اور ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ایک دن ہم بھی اسی طرح سدا کے لیے خاموش ہوجائیں گے… البتہ اس دو منٹ کی خاموشی میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی سے وابستہ منصوبے خاموشی سے تیار کرلیا کرتے ہوں گے… دو منٹ 120سکنڈس پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ زندگی کو موت میں بدلنے کے لیے صرف ایک لمحہ کافی ہے ۔ ’’میرے بعد‘‘ کے زیر عنوان کسی نے ’’دو منٹ ‘‘ کا کیا خوب استعمال کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
میرے بعد …
زندگی میں دو منٹ کوئی میرے پاس نہ بیٹھا
آج سب میرے پاس بیٹھے جارہے تھے
کوئی تحفہ نہ ملا آج تک مجھے اور آج پھول ہی پھول دیے جارہے تھے
ترس گئے ہم کسی کے ہاتھ سے دیے ایک کپڑے کو اور آج دو نئے کپڑے پہنائے جارہے تھے
دو قدم ساتھ نہ چلنے کو تیار تھا کوئی
اور آج قافلہ بنا کر لے جارہے تھے
آج پتا چلا مجھے کہ موت اتنی حسین ہوتی ہے
کمبخت ہم تو یوںہی جیے جارہے تھے !
’’ صرف دو منٹ ‘‘ کا وعدہ کرکے ہم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے گھنٹوں تباہ کر رہے ہیں لیکن تعجب ہے کہ ہمارے پاس نماز کے لیے چند منٹ نہیں !
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *