[]
نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولاناارشدمدنی نے جاری اپنے ایک تازہ بیان میں کہاہے کہ جمعیۃعلماء ہندکا جونمائندہ وفدفساداورمتاثرہ علاقوں کاجائزہ لینے کے لئے نوح، میوات اوراطراف کے علاقوں کے دورہ پرگیاتھا اس نے لوٹ کر جو رپورٹ دی ہیں وہ انتہائی روح فرساہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہوکر سامنے آگئی کہ یہ فسادمنصوبہ بند تھا اس میں پولس اورانتظامیہ کارول مشکوک رہاہے جس کے متعددویڈیووائرل ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر فسادمیں مٹھی بھرفرقہ پرست طاقتیں اچانک نمودارہوتی ہیں اورفسادکرکے منظرسے غائب ہوجاتی ہیں، نوح واس کے اطراف میں بھی یہی ہوا، جہاں دہائیوں سے ہندواورمسلمان پیارومحبت سے رہ رہے تھے اوراب بھی رہ رہے ہیں، لیکن منظم سازش کے تحت فسادبرپاکرایا گیا اورپولس انتظامیہ کی نااہلی کے نتیجہ میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیانک شکل اختیارکرگیا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت منصوبہ بند فسادکی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی کیونکہ امن وامان کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، لیکن فسادات کے دوران ہر حکومت ہمیشہ امن وامان برقراررکھنے میں ناکام رہی ہے، اورہندوستان میں اس کی ایک تاریخ ہے۔
مولانامدنی نے کہا کہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس منظم اندازمیں فسادبرپاکیاجاتاہے ٹھیک اسی منظم اندازمیں پہلے ہی سے مجرموں کو بچانے کی بھی تیاری کرلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بے گناہ کو جیل پہنچادیا جاتاہے اورآگ لگانے والے آزادرہتے ہیں،بے جاگرفتاریاں ہمیشہ کی طرح معمول بن گئی ہے جہاں بھی فسادہوتاہے یکطرفہ مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاریاں ہوتی ہیں۔
ابھی کانوڑکے موقع پر دہرادون کے قریب رام پورمیں کایوڑیوں نے مسجد پر پتھرپھینکا،اوروہاں کھڑے ہوکراشتعال انگیزنعرہ لگائے لیکن گرفتاریاں صرف مسلمانوں کی ہوئیں۔ اس طرح ہاپوڑاورمختلف جگہوں پربھی اشتعال انگیزنعروں کی وجہ سے آپس میں ٹکراؤہوالیکن گرفتاریاں صرف مسلمانوں کی ہوئیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ مجرم تومجرم ہے مذہب کی بنیادپر تفریق نہیں ہونی چاہئے لیکن یہ ایک ٹرینڈبن گیا ہے کہ ہرفسادکے بعد جو مظلوم ہوتاہے اسے ہی ظالم اورفسادی بناکرپیش کردیاجاتاہے۔
نوح فسادمیں بھی اسی ٹرینڈپر عمل ہورہاہے جبکہ حقائق چیخ چیخ کربتارہے ہیں کہ اکسانے اوراشتعال انگیزنعرے ان لوگوں نے لگائے جواس یاترامیں شامل ہونے کے لئے باہر سے آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میوات کاعلاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اورفسادکے بعد بھی وہاں کے حالات پرامن ر ہے، علاقہ کے ہندواورمسلم پہلے ہی کی طرح محبت اورخلوص کے ساتھ رہ رہے ہیں یہاں تک کہ فسادکے دوران مسلمانوں نے اپنے پڑوسی ہندوبھائیوں اوراس کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا ۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ فسادبرپاکرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں اوربے گناہ مسلمانوں کو اٹھااٹھاکر جیلوں میں ٹھونساجارہاہے یہاں تک کہ نابالغ بچوں کو بھی نہیں بخشاجارہاہے اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خودکو سیکولرکہنے والی سیاسی پارٹیوں کے قائدین چپ ہیں اورملک کاسیکولر ودانشورطبقہ بھی پوری شدت کے ساتھ اس کے خلاف آوازنہیں اٹھارہاہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ فسادات سے کسی مخصوص فرقہ، طبقہ یا فردکا نہیں ملک کانقصان ہوتاہے اور اس کا وقار مجروح ہوتاہے، اس حساس مسئلہ پر ارباب اقتدارکو سوچنا چاہئے لیکن افسوس سیاست داں وفرقہ پرست طاقتیں اقتدارکی کاخاطر ملکی وعوامی مسائل کی جگہ صرف اورصرف مذہب کی بنیادپر نفرت کی سیاست کررہے ہیں جو ملک کے لئے انتہائی نقصاندہ ہے۔
حالانکہ اس سے پہلے ملک میں الیکشن تعمیراتی پروگرام روزگاراورتعلیم کی بنیادپر لڑاجاتاتھا لیکن اب فرقہ پرست طاقتیں عوام کو مذہب کا نشہ پلا کر الیکشن صرف اورصرف فرقہ ورانہ بنیادپرلڑرہی ہیں، انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ملک کے حالات مایوس کن اورخطرناک ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امید افزابات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجودملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کی جمہوری تاریخ مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہے، اب تک بیس ہزارسے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ملک میں ہوچکے ہیں، ان فسادات میں مسلمانوں کا جویکطرفہ جانی ومالی نقصان ہواہے اس کاتخمینہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔
لیکن الم ناک پہلو یہ ہے کہ فسادکے کسی بھی ایک معاملہ میں قانون وانصاف کے تقاضے کو پورانہیں کیا گیا کسی قصوروارکو سزانہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔