لیبر بحران: کروشیا نے ایشیائی افرادی قوت کے لیے دروازے کھول دیے

[]

جہاں کچھ لوگ نئے آنے والوں کے استحصال کی کوشش کرتے ہیں، وہاں کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جو آنے والوں کو ملازمتوں کی تلاش میں بھرپور مدد فراہم کر رہے ہیں۔

لیبر بحران: کروشیا نے ایشیائی افرادی قوت کے لیے دروازے کھول دیے
لیبر بحران: کروشیا نے ایشیائی افرادی قوت کے لیے دروازے کھول دیے
user

Dw

یورپی ملک کروشیا کو مزدوروں کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک نے ایشیائی ممالک کی لیبر کے لیے اپنی مارکیٹ کے دروازے کھول دیے ہیں۔ تاہم تارکین وطن کو اس ملک میں شدید مسائل کا بھی سامنا ہے۔

دُرگا پھوئل ان ہزاروں تارکین وطن میں سے ایک ہیں، جو ایشیائی ممالک سے نقل مکانی کرتے ہوئے کروشیا پہنچ رہے ہیں کیونکہ یورپی یونین کا یہ چھوٹا سا ملک محنت کشوں کی دائمی قلت پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ دُرگا پھوئل کو امید تھی کہ کروشیا میں داخل ہوتے ہی ان کی زندگی کی زیادہ تر مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن اس نیپالی تارک وطن کو بلقان کے اس ملک میں قدم جمانے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

روایتی طور پر کروشیا میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس کی ہمسایہ بلقان ریاستوں سے مزدور آتے ہیں لیکن یہ ”سیزنل ورکر‘‘ ہوتے ہیں۔ تاہم کروشیا اب اس خلا کو مستقل بنیادوں پر پُر کرنے کے لیے نیپال، بھارت، فلپائن اور پاکستان جیسے ممالک کے مزدوروں پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ کروشیا بحیرہ ایڈریاٹک کے ساتھ ساتھ اپنے دلکش ساحلوں کے لیے مشہور ہے لیکن اس ملک کے نوجوانوں کی یورپی ممالک کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت اور اس کی سکڑتی ہوئی آبادی نے سیاحت پر انحصار کرنے والے اس ملک کی تعمیرات اور خدمات کی صنعت میں دسیوں ہزار خالی آسامیاں پیدا کر دی ہیں۔

لیکن اس ملک میں آنے والا ہر کوئی مہاجر خوش نہیں ہے۔ تارکین وطن کو تنگ کیا جاتا ہے، انہیں کرایے کے مکان مہنگے ملتے ہیں جبکہ انتخابات سے قبل مہاجرین مخالف بیان بازی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ دُرگا پھوئل نے کروشیا آنے سے پہلے نیپال میں مختلف فیسوں، دستاویزات اور سفری اخراجات کی مد میں مجموعی طور پر 7,000 یورو ادا کیے۔ لیکن کروشیا پہنچنے کے بمشکل ایک ماہ بعد ہی وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں اور اس ایجنسی کی طرف سے کسی قسم کی مدد کی پیشکش نہیں کی گئی، جس کے ذریعے وہ اس ملک میں پہنچی تھیں۔

درگا پھوئل اس ملک میں اپنے ابتدائی دو ماہ کے بارے میں کہتی ہیں،”یہ میرے لیے بہت مشکل تھے، کوئی نوکری نہیں تھی، کوئی رہائش نہیں تھی اور کھانا بھی نہیں تھا۔‘‘ اس ملک نے سن 2023 میں تقریباً 120,000 غیر یورپی شہریوں کو ورک پرمٹ فراہم کیے ہیں۔ سن 2022 کے مقابلے میں یہ اضافہ 40 فیصد بنتا ہے۔ لیکن اپریل میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے دائیں بازو کی جماعتیں تارکین وطن پر ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے اور مقامی افراد کی ملازمتیں چرانے ایسے الزامات عائد کر رہی ہیں۔

غیرملکی تارکین وطن کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دارالحکومت زغرب میں نئے سال کی تقریب کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ”کھٹمنڈو کا سال نو‘‘ اور ”نیپالی نیا سال‘‘ ہے۔ کروشیا کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی نسلی کروآٹس پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباً 80 فیصد رومن کیتھولک ہیں۔ کسی بھی دوسرے یورپی ملک میں کسی ایک نسل کی آبادی اتنی زیادہ تعداد میں نہیں ملتی۔ زبان کے مسائل کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے ساتھ قدامت پسندانہ رویوں نے نئی لیبر فورس کے لیے رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔

یونیورسٹی آف زغرب کے ماہر عمرانیات درگان بیگچ کہتے ہیں،”ان ممالک کے برعکس، جن کا اپنی پوری تاریخ میں متنوع ثقافتوں سے رابطہ رہا ہے، جیسے کہ فرانس یا برطانیہ، کروشیا کو پہلی بار ایسی صورتحال کا سامنا ہے، جہاں اسے بہت مختلف گروہوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ کروشین ایمپلائرز ایسوسی ایشن کی پیشن گوئی کے مطابق صرف 3.8 ملین آبادی والے اس ملک کو رواں دہائی کے آخر تک پانچ لاکھ غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

تنخواہیں اور رہائش کے مسائل

ماہرین کے مطابق نئے آنے والے تارکین وطن رہائش کی تلاش کے دوران سب سے زیادہ خطرے کا شکار رہتے ہیں۔ دارالحکومت زغرب کے ایک مقامی اخبار میں کی گئی تحقیقات کے مطابق شہر میں 83 مربع میٹر (893 مربع فٹ) کے ایک اپارٹمنٹ میں 32 غیر ملکی کارکن رہائش پذیر تھے۔ غیر ملکی کارکنوں کے لیے شائع کیے جانے والے اشتہارات عام طور پر تقریباً ایک درجن بستروں والے چھوٹے اپارٹمنٹس پیش کرتے ہیں، جن کی قیمت فی شخص تقریبا 200 یورو ہوتی ہے۔

نیپالی کارکنوں کے ایک نمائندے نے بتایا کہ کروشیا میں ان کی اجرت 560 سے 1000 یورو ماہانہ کے درمیان ہے۔ اگر اس تنخوا کا موازنہ دیگر یورپی ممالک سے کیا جائے تو یہ کافی کم بنتی ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کروشیا کی حکومت غیر ملکیوں سے متعلق قانون میں ایک ترمیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ رہائش کو بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکے، زبان کی کلاسیں فراہم کی جائیں اور عارضی ملازمت فراہم کرنے والی ایجنسیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی نگرانی کی جا سکے۔

بہت سے تارکین وطن کی منزل کروشیا نہیں

بہت سے تارکین وطن اپنے گھر والوں کی مالی مدد کرنے کے لیے آئے تھے اور ان میں سے اکثر کے لیے کروشیا ایک نقطہ آغاز ثابت ہو رہا ہے۔ زیادہ تر تارکین وطن یورپ کے امیر ممالک میں آباد ہونے کی امید رکھتے ہیں۔

ترقی کے مواقع بھی موجود

کیرالہ سے آنے والے ڈینسن ڈی کروز کے مطابق انہوں نے کروشیا کا انتخاب اس وجہ سے کیا تھا کیونکہ یہ یورپ کے شینگن زون کا حصہ ہے اور پاسپورٹ کے بغیر دیگر یورپی ممالک تک سفر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تیس سالہ نوجوان گزشتہ برس مکینک کے طور پر کروشیا کام کرنے آیا تھے لیکن اب یہ اپنی امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی چلا رہے ہے۔ اس کے مطابق کروشیا میں ”صاف آب و ہوا، دوستانہ ماحول اور انگریزی بولنے والے لوگوں‘‘ کی وجہ سے وہ مستقبل قریب میں اسی ملک میں رہنے کی امید رکھتا ہے۔

جہاں کچھ لوگ نئے آنے والوں کے استحصال کی کوشش کرتے ہیں، وہاں کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جو آنے والوں کو ملازمتوں کی تلاش میں بھرپور مدد فراہم کر رہے ہیں۔ مشکل وقت سے گزرنے کے بعد دُرگا پھوئل کو بھی بالآخر ایک عارضی ایجنسی میں کام مل چکا ہے اور وہ جلد ہی ایک بیوٹی سیلون میں کام شروع کرنے کی امید رکھتی ہیں۔ ایک مقامی ایجنسی کے مالک روزیکا کریپچک کہتے ہیں، ”نیپالی بہت اچھے کارکن ہیں، حالات کے مطابق ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں اور جلدی سیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *