[]
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ایرانی کلینڈر سال کے مطابق نئے سال کے آغاز پر تہران میں حسینیہ امام خمینی میں عوام سے خطاب کررہے ہیں۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب میں طبیعت اور معنویت کی بہار کو لوگوں کے لئے قابل استفادہ قرار دیا اور کہا کہ بہار طبیعت کی بہار معنویت انسان کو فرحت اور اطمینان بخشتی ہے۔ آپ سیر و سلوک کی طرف ماہ رمضان میں سفر شروع کریں۔ ماہ رمضان میں وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان معنوی مراحل طے کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال کا نعرہ ملک کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سال کے نعرے کے تحت اقتصادی مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اقتصاد ملک کا مرکزی مسئلہ ہے۔ اگر ملکی معیشت میں بہتری آجائے تو عوام کا دین اور دنیا دونوں آباد ہوں گے۔
رہبر معظم نے کہا کہ دشمن نے کئی سالوں سے ایران کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کی مذموم کوشش کی ہے لیکن عوام مخصوصا باصلاحیت جوانوں کی محنت اور لگن کی وجہ سے دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ملک کے اہم امور کو آگے بڑھانے کے لئے عوام کو رضاکارانہ طور پر آگے آنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال مہنگائی کو کنٹرول اور پیداوار میں اضافہ کے نعرے کے تحت اچھے کام ہوئے تاہم مطلوبہ ہدف سے پیچھے ہیں۔ صنعتی ترقی بڑا اور مشکل کام ضرور ہے تا ہم ناممکن نہیں ہے۔ اگر ملک معاشی طور پر ترقی کرے تو ہر شعبے میں بہتری آئے گی۔ دشمن کا ہدف ایران کو معاشی طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے البتہ اس ہدف میں ناکام ہوں گے۔
رہبر معظم نے صدررئیسی کی حکومت کی کارکردگی کے حوالےسے کہا کہ موجودہ حکومت کی کوشش اور فعالیت بہتر ہے۔ اقتصاد اور معیشت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
عالمی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ غزہ کے واقعات نے عالمی برادری پر واضح کردیا کہ دنیا پر کس قدر ظلمت اور ظلم کی حکمرانی ہے۔ اپنے آپ کو مہذب کہنے والے مغربی ممالک غزہ میں بے گناہوں کے قتل عام اور تباہی پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ ظالم صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو غزہ کے واقعات نے مقاومتی بلاک کی حقانیت کو بھی ثابت کردیا۔ صہیونی حکومت کے مظالم کے باوجود مقاومتی بلاک ہر روز پہلے سے زیادہ طاقتور ہورہا ہے۔ باضمیر انسان ستر سالوں سے جاری صہیونی مظالم کو دیکھے تو فطری طور پر ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ان چند مہینوں کے اندر مقاومت نے اپنی اندرونی صلاحیت اور توانائی کو دکھایا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو اندازہ نہیں تھا۔ مقاومت نے امریکہ کے تمام تر منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔ امریکہ خطے میں ہر شعبے میں اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتا تھا لیکن مقاومت نے امریکی منصوبے کا ناکام بنادیا اب امریکہ کے پاس خطے سے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
رہبر معظم نے کہا کہ صہیونی حکومت کی حالت زار سب پر واضح ہوگئی ہے۔ اسرائیل اندرونی طور پر بحران سے دوچار ہے۔ غزہ کے دلدل میں پھنسنے کے بعد” نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن” کی صورتحال درپیش ہے۔ غزہ سے نکلنا بھی ذلت اور رہنا بھی شکست ہے۔ اس طرح پہلے سے صہیونی حکومت کے سقوط کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آج صہیونی حکومت فیصلہ کرنے کی قدرت سے عاری ہے۔
انہون نے کہا کہ غزہ کے واقعات کے بعد امریکی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ خطے کے ساتھ عالمی سطح پر امریکہ کے لئے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ یمن، عراق اور لبنان میں ہونے والے واقعات کے لئے ایران کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے یہ سلسلہ امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ہم خطے میں مقاومت کا دفاع کریں گے تاہم مقاومت اپنے فیصلے خود کرتی ہے اور اپنی سرگرمیوں میں آزاد ہے۔