[]
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
ہر برائی کے بعد اچھائی سامنے آنے لگتی ہے۔ لوگ کتوں کے بھونکنے کی آواز توسنتے ہیں لیکن انہیں بلبل کے نغموں کی آواز سنائی نہیں دیتی‘ رات کی سیاہی تو دیکھتے ہیں لیکن چاند ستاروں کے حُسن پر نظر نہیں جاتی‘ شہد کی مکھی کے کانٹے کی شکایت تو کرتے ہیں لیکن شہد کی مٹھاس بھول جاتے ہیں‘ ہمیں صبرو استقلال کے معاملے میں چیونٹی کی مثال بننا چاہئے جو سو بار درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن گر پڑتی ہے۔ گرتی ہے اٹھتی ہے پھر چڑھتی ہے بالآخر منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ کبھی بھی اُکتاتی نہیں۔ جب دلوں پر مایوسی چھا جاتی ہے اور کشادہ سینے بھی تنگ ہوجاتے ہیں ‘ مصیبتیں و آفتیں اپنی جگہ جم کر رہ جاتی ہیں نہ عقل مندکی تدبیر کارکرد ہوتی ہے اور نہ ہی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو ایسی مایوس کن گھڑیوں میں پروردگار عالم کی غائب سے مدد آجاتی ہے اور بڑے سے بڑے مصیبت کے پہاڑ ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور ہر سُو اُجالے دیکھائی دینے لگتے ہیں۔ اب ملک میں ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے ۔ ذات، پات، فرقہ ، زبان اور علاقہ واریت کا جب ننگا ناچ ہونے لگتا ہے تو پھر ’’ جس کی جتنی ساجھے داری اس کی اتنی حصہ داری ‘‘ والا فلسفہ کام کرنے لگتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ فلسفہ ہندوستان کی سب سے بڑی سچائی بن کر اُبھرے گا۔ بہت ساری سیاسی جماعتوں نے وقتاً فوقتاً اس موضوع پر بحث کی لیکن اب ملک کے بیباک قائد راہول گاندھی نے تمام پسماندہ طبقات کی مردم شماری کا بگل بچا کر اسے پوری طرح گرما دیا ہے جو یقینا 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد ایک حقیقت میں تبدیل ہوجائے گا۔ ملک میں بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کے خاتمہ کے لئے یہ ایک موثر ہتھیار ہوگا۔ Proportionate‘ Representation آنے والے کل کے ملک کو پُرامن بنانے کا بہترین گلدستہ ثابت ہوگا۔ بھارت جوڑو نیائے یاترا میں راہول گاندھی نے اس موضوع کو ملک کے کونے کونے تک پہنچادیا ہے۔ انہوں نے عوام سے راست ملاقات کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری I-N-D-I-Aکے اقتدار پر آتے ہی شروع کردی جائے گی تاکہ تمام طبقوں کی آبادی کی بنیاد پر انہیں مقننہ ‘ نوکر شاہی اور تعلیمی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جاسکے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملک میں ایک نیا انقلاب بپا ہوگا۔ بھوک، بیروزگاری ، تنگدستی اور صحت سے متعلق تمام مسائل کا حل نکل آئے گا اور دنیا ایک نئے خوشحال ہندوستان سے فیض یاب ہوگی۔ I-N-D-I-Aکے اس انقلابی پروگرام کے سبب بھارتیہ جنتاپارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور وہ ہر طرف I-N-D-I-Aاتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ ای ڈی کے ذریعہ دلی کے منتخبہ چیف منسٹر اروند کیجریوال کی گرفتاری بھی اس کی گندی سیاست کا ایک جز ہے۔ اس سے پہلے جھارکھنڈ کے چیف منسٹر کی کسی ٹھوس وجہ کے بغیر گرفتاری جمہوریت کو قتل کرنے کے مترادف ہی ہے۔ کانگریس سے بی جے پی کی گھبراہٹ کا ایک اور ثبوت اس طرح سامنے آیا ہے کہ اس نے کانگریس کی رقومات کو منجمد کردیا ہے تاکہ کانگریس پارٹی کو اپنی چناوی مہم چلانے میں زبردست دقت ہوسکے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ 1995 کے ایک کیس کو پھر سے چالو کیا گیا اور کانگریس پارٹی کو نوٹس دی گئی۔ ملکارجن کھڑگے، سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور اجئے ماکن نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں تفصیلات بتاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ 11 لاکھ کا معاملہ ہے جس کا ریٹرن پیش کرنے میں صرف ایک مہینہ کی تاخیر ہوئی ہے تو انکم ٹیکس نے 211 کروڑ روپئے کی رقم ہی کو منجمد کرکے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس 10ہزار کروڑ روپئے ہیں تو کانگریس کے پاس صرف صفر رقم ہے تو ان دونوں پارٹیوں میں مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کی عوام کے ذہنوں میں یہ احساس گھر کرتا چلا جارہا ہے کہ ملک تانا شاہی کی طرف گامزن ہے اور جمہوریت موت کی آغوش میں جارہی ہے۔ ایسے میں اس بات کا خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ کہیں ملک میں انتشار نہ پیدا ہوجائے۔ ہندوستان کے تمام ذمہ دار شہریوں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ایسے حالات کے سبب اگر ملک کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا جواب دیں گے۔ ملک کو انتشار کی اس کیفیت سے بچانے کے لئے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یکجا ہونا پڑے گا اور پُر امن تحریکوں کے ذریعہ تاناشاہی کو ختم کرنا ہوگا۔ ملک کے دانشور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس وقت ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی جاری ہے۔ میڈیا ، بیوریوکریسی اور عدلیہ پوری طرح کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر یہ تینوں ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں تو ملک کا مستقبل یقینا خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے ہر قانونی و دستوری اداروں کو کمزور کرنے کے در پے ہیں۔ اس نے سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی سازشوں کی وجہ سے تین بڑی سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ملک میں کبھی بھی اتنی بُری سیاسی اور معاشی حالت دیکھنے کو نہیں ملی ہے جو آج ہمارے آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہے۔ مودی کی دس سالہ حکومت نے بیروزگاری کی شرح کو بہت بڑھا دیا ہے۔ 80 کروڑ لوگوں کو فی کس پانچ کلو اناج کا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جی ڈی پی بھی بُری طرح گھٹ گئی ہے۔ بی جے پی کی اس بد حال حکومت سے اس سال عوام کو چھٹکارا مل جائے گا اور I-N-D-I-Aبلاک کی حکومت ہمارے ملک کی زندگی میں ایک نیا جوش پھونکے گی۔ بی جے پی کی تمام غلط پالیسیوں کو ختم کیا جائے گا اور قوم کو ایک آزاد اور خوشحال زندگی کا مژدہ سنایا جائے گا۔ بمبئی میں نیائے یاترا کے اختتام کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے راہول گاندھی نے یہ کہا تھا کہ ای ڈی کے ایک عہدیدار نے ان سے کہا کہ آپ ای ڈی سے نہیں ڈرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مودی سے بھی نہیں ڈرتے۔ ان کے اس حوصلے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ؎
ساحل کے سکون سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزہ ہی کچھ اور ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰