جنون اور حوصلہ کا دوسرا نام تھے ظفر آغا

[]

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ گزشتہ سات سالوں سے ان کے مضامین میں ہی ٹائپ کیا کرتا تھا۔ وہ اکثر 5-4 صفحات کا مضمون لکھتے تھے جو ٹائپ کرنے کے بعد 1200-1000 الفاظ ہوتے تھے۔ لیکن پچھلے تقریباً دو ماہ سے وہ اپنا مضمون 30-25 صفحات پر لکھ کر مجھے واٹس ایپ یا ای-میل کر رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ قلم پکڑنے میں ان کی انگلیاں بہت تھرتھراتی تھیں اور بینائی کمزور ہونے کے سبب باریک الفاظ لکھنے میں انھیں دقت بھی ہوتی تھی۔ ایک صفحہ پر بمشکل 50 الفاظ لکھتے تھے اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ پڑھنا محال۔ گزشتہ ہفتہ انھوں نے ’سیفی جیسی لاکھوں مسلم لڑکیاں ترقی کی نئی منزلیں چھونے کو تیار‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو 26 صفحات پر مشتمل تھا۔ ظفر صاحب نے مجھے یہ صفحات ای-میل کر فون کیا اور کہا کہ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے، کسی طرح مضمون لکھا ہے ٹائپ کر کے بھیج دینا۔ جب میں نے دیکھا تو بیشتر صفحات میں الفاظ انتہائی دھندلے تھے اور 2 صفحات تو ایسے تھے جس میں ایک بھی لفظ پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ظفر صاحب کو فون کیا تو ان کے بیٹے مونس نے اٹھایا اور کہا کہ وہ سو رہے ہیں۔ مونس کو صفحہ نمبر بتا کر دوبارہ صاف تصویر کھینچ کر بھیجنے کی گزارش کی۔ اس نے جب وہ دونوں صفحات دیکھے تو سب کچھ دھندلا ہی تھا، یعنی ان کی انگلیوں میں لکھنے کی اب وہ طاقت نہیں تھی۔ لیکن ان کا جنون اور حوصلہ ہی تھا کہ وہ ہار نہیں مانتے تھے اور مستقل ان کا لکھنا جاری تھا۔ چند ایک دفع میں نے ان سے کہا کہ آپ زبانی بول دیا کریں، میں ٹائپ کر دوں گا۔ لیکن وہ کہتے ’تقریر اور تحریر کا انداز الگ ہوتا ہے۔ میں بڑا بڑا اور صاف صاف لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ تمھیں پڑھنے میں پریشانی نہ ہو۔‘ اسے اپنے کام کے تئیں جنون نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہیں گے! آخر وقت میں انھیں چلنے میں کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی، پھر بھی دفتر آتے تھے۔ قلم پکڑتے ہوئے انگلیاں تھرتھراتی تھیں، لیکن اپنی پوری طاقت سمیٹ کر لکھتے تھے۔ ان کے حوصلے اور ان کے جنون کو ہزار بار سلام!

’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں‘

(مضمون نگار ’قومی آواز‘ [ڈیجیٹل] میں نیوز ایڈیٹر ہیں)

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *