[]
دھار: مدھیہ پردیش کے قبائلی ضلع دھار میں متنازعہ بھوج شالہ / کمال مولا مسجد کامپلکس کا سروے ہفتہ کو محکمہ آثار ِ قدیمہ(اے ایس آئی) نے دوسرے دن بھی جاری رکھا۔
اے ایس آئی کی ٹیم آج صبح 8 بجے کے آس پاس متنازعہ کامپلکس پہنچی۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے حکم پر جمعہ کے دن سروے شروع ہوا تھا۔
اے ایس آئی ٹیم کے ساتھ سینئر پولیس عہدیداروں کے علاوہ ضلع انتظامیہ کے ذمہ داران بھی موجود ہیں۔ عینی شاہدین کے بموجب کامپلکس کے قریب بھاری سیکوریٹی فورس تعینات ہے۔ ہندو فریق کے درخواست گزار آشیش گوئل اور گوپال شرما بھی کامپلکس پہنچے۔
مسجد کمال مولا ویلفیر سوسائٹی کے صدر عبدالصمد نے جو عدالت میں فریق ہیں‘ میڈیا نمائندوں سے کہا کہ انہوں نے سروے میں حصہ نہیں لیا کیونکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور انہیں جانکاری بھی تاخیر سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں۔
سروے اگر دستور کے دائرہ میں اور ہائی کورٹ کے حکم کی مطابقت میں ہو تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن نئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں‘ جیسے 2004 میں بنے ستونوں کی بات ہورہی ہے۔ مسلم فرقہ نے بھی ستونوں پر اعتراض کیا تھا اور یادداشت پیش کی تھی۔ مخالفت کے باوجود اندر ستون برقرار ہیں اور انہیں ہٹایا نہیں گیا۔
ہندو فریق چاہتا ہے کہ ان ستونوں کو بھی سروے میں شامل کیا جائے۔ بعدازاں ایک مورتی نصب کردی گئی اسی لئے ہم نئے سروے کی مخالفت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکم جاری کردیا جبکہ بھوج شالہ کے تعلق سے مسلم کمیونٹی کے دائر کردہ کئی کیسس زیرالتوا ہیں۔
کمال مولا مسجد ویلفیر سوسائٹی‘ ہائی کورٹ کے احکام کے خلاف 16 مارچ کو جلد سماعت کے لئے سپریم کورٹ گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ وہ یکم اپریل کو سماعت کرے گی۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 11 مارچ کو اے ایس آئی کو ہدایت دی تھی کہ وہ بھوج شالہ کامپلکس کا اندرون 6ہفتے سائنٹفک سروے کرے۔
عہدوسطیٰ کی اس تاریخی عمارت کو ہندو واگ دیوی (سرسوتی) کا مندر مانتے ہیں جبکہ مسلمان اسے مسجد کمال مولا مانتے ہیں۔ 7 اپریل 2003کو جاری کردہ اے ایس آئی کے احکام کے مطابق ہندوؤں کو ہر منگل کو کامپلکس کے اندر پوجا کی اجازت ہے جبکہ مسلمانوں کو ہر جمعہ کو نماز ادا کرنے دیا جاتا ہے۔