[]
مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: رمضان المبارک کے پانچویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں کہ اے اللہ اس مہینے میں مجھے استغفار کرنے والوں میں سے قرار دے اور مجھے اپنے صالح اور نیک بندوں میں شامل کر اور مجھے اپنے مقرب اولیاء میں سے قرار دے، اپنے لطف و کرم سے اے بہترین رحم کرنے والے۔
(اللَّهُمَّ اجْعَلْنِی فِیهِ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِینَ وَاجْعَلْنِی فِیهِ مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ الْقَانِتِینَ وَاجْعَلْنِی فِیهِ مِنْ اَوْلِیائِکَ الْمُقَرَّبِینَ بِرَاْفَتِکَ یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.)
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی رمضان المبارک کے پانچویں دن کی دعا کے بارے میں فرماتے ہیں: رمضان المبارک کے پانچویں دن کی دعا کے اہم ترین نکات میں استغفار کے تقاضوں کو پورا کرنا، امام علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں توبہ کی حقیقت کا ادراک، صالحین کی خصوصیات اور خدا کا قرب حاصل کرنے کے طریقوں کی وضاحت شامل ہے۔
سچی توبہ
بلاشبہ سچی توبہ صرف معافی مانگنے اور ماضی سے توبہ کرنے اور مستقبل میں گناہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کے علاوہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں، انسانی روح میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور گناہ سے معاشرے میں جو برے اثرات پڑے ہیں، ان کی حتی الامکان تلافی بھی بہت ضروری ہے۔
امام علی علیہ السلام کے کلام میں توبہ کی حقیقت
حضرت علی علیہ السلام نے توبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: بخشس طلب کرنا ایک اعلیٰ مرتبے کی حامل خصوصیت ہے اور یہ بظاہر ایک لفظ ہے لیکن اس کے چھے معانی اور مراحل ہیں:
پہلا، ماضی پر ندامت، دوسرا، مستقبل میں ہمیشہ کے لیے ترک گناہ کا پختہ ارادہ، تیسرا یہ کہ لوگوں کے جو حقوق گردن پر ہیں ان کی اس انداز میں ادائیگی کہ جب تم اپنے رب سے ملو تو تمہاری گردن پر کسی بندے کا کوئی حق نہ ہو، چوتھا یہ کہ تم سے اگر کوئی واجب رہ گیا ہو تو اس کی قضا بجا لاو۔ پانچواں یہ کہ جس گناہ اور حرام کی وجہ سے تیرے بدن کا گوشت و پوست بنا اسے زائل کرنے کے لئے اس قدر اشک ندامت بہاو اور غم و اندوہ میں ڈوب جاو کہ تیرا گوشت پوست گھل جائے اور اس کی جگہ نیا گوشت و پوست آجائے اور چھٹا یہ کہ تم نے گناہ اور معصیت سے جس قدر لذت حاصل کی ہے اس قدر اطاعت کی تلخی برداشت کر۔ ان مراحل کو مکمل کرنے کے بعد، پھر جا کر ” اسْتَغْفِرُاللّه۔” کہنا۔
خدا کے صالح بندے کون ہیں؟
لفظ “صالح” میں ایمان اور توحید کے لحاظ سے قابلیت کے علاوہ، عمل، تقویٰ اور علم کے لحاظ سے صلاحیت اور قوت و طاقت اور شائستگی کے لحاظ سے اہلیت کا ہونا اور اسی طرح حسن تدبیر، نظم و ضبط اور معاشرتی فہم کے لحاظ سے قابلیت کا پایا جانا بھی شامل ہے۔
لہٰذا صالح بندے وہ ہیں جو اپنا سارا وجود خدا کی راہ میں پورے شوق سے پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تفکر کا صرف ایک لمحہ فرشتوں کے کئی سالوں کی عبادت کے برابر ہے! یہ صاحبان تقوی اور اہل زہد ہیں جو اپنے رب سے انس و شدید قلبی لگاو رکھتے ہیں۔
اس عظیم اور بے مثال منزل تک پہنچنے کے لیے درست اور محکم عقائد اور اصول دین کی خصوصی پابندی، توبہ اور اعمال صالحہ کی طرف لوٹ آنا، گناہوں سے پرہیز اور واجبات کی ادائیگی، تزکیہ نفس اور اسے اخلاق کی خوبیوں سے آراستہ کرنا، انا پرستی کو مٹانا اور حق کے مقابلے میں سرتسلیم خم کرنا ضروری ہے تاکہ انسان مکمل آگاہی اور معرفت کی بنیاد پر قدم اٹھا سکے۔
دوسرے لفظوں میں “میں” (انا) کو اس طرح مٹا دیا جائے کہ انسان “میں” کی فکر سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے اور شریعت اور سیر و سلوک کے تمام مسائل، فرائض، احکام، آداب، طرز عمل اور راستے سے آگاہ ہو جائے اور ایک ماہر طبیب کی طرح درد کی تشخیص اور اس کا علاج کر سکے۔
اے مہربانی کرنے والوں سے مہربان ترین
بلاشبہ وہ لوگ جو اپنے”میں” (انا) کی نفی کر کے خالق کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں، اپنی خواہشات نفسانی اور کبر و غرور کو پاوں تلے کچل دیتے ہیں اور “برافتک یا ارحم الراحمین؛ کی منزل کو پہنچ جاتے ہیں یقینا اللہ کے صالح بندوں میں سے ہیں۔