[]
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، ہالینڈ، جاپان، ناروے اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک اور جنوبی کوریا میں جرمنی سے درآمد کئے جانے والے انڈوں اور مرغی کے گوشت میں کینسر پیدا کرنے والے کیمیائی مادوں کے انکشاف کے بعد، فوری طورپر جرمنی سے منگوائے جانے والے انڈوں اور گوشت کی فراہمی روک دی گئی ہے
جبکہ جرمن حکام کے حوالے سے خود جرمن جرائد و اخبارات کا ماننا ہے کہ اب تک جانچ کے بعد، بند کئے جانے والے فارم ہاؤسز کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے جبکہ حکام اور ماہرین صحت کی جانب سے کی جانے والی اسکریننگ کا دائرہ کار مزید وسیع کر کے سِیل کئے جانے والے اور نہ سیل کئے جانے والے، فارم ہاؤسز یا پولٹری فارمز سے انڈوں اور مرغی کے گوشت کے نمونے حاصل کر کے، ان کو لیبارٹریز میں چیکنگ کیلئے بھیج دیا گیا ہے۔
یہاں یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ، جرمن انڈوں اور گوشت کے استعمال کنندگان میں سرفہرست ہیں اور ان انڈوں اور مرغی کے گوشت میں کیڑے مار ادویات میں استعمال کئے جانے والے زہریلے کیمیائی مادے ڈائی اوکسین (dioxin) کی انتہائی زیادہ مقدار پائی گئی ہے، جو انسانی صحت کیلئے مضر اور خطرناک قرار دی جاتی ہے۔
ماہرین اور وزارت صحت کے ڈاکٹرز اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ کیمیائی مادہ، انڈوں، مرغی کے گوشت اور دیگر جانوروں کے دودھ اور گوشت میں اسی تناسب سے قائم رہا تو یقینا ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر اس غذا کو استعمال کرنے والے افراد کینسر کا شکار ہو جائیں گے۔ امریکی جریدے واشنگٹن ٹائمز کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ کم از کم دو امریکی ریاستوں میں مویشیوں کے پیک دودھ میں بھی ڈائی اوکسین مادہ پایا گیا ہے جس نے ماہرین کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
عالمی خبری ایجنسیوں اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے اور اخبارات و جرائد کا ماننا ہے کہ جرمن انڈوں اور گوشت میں کینسر کے مرض کا سبب بننے والے کیمیائی مادے ڈائی اوکسین کی موجودگی کا انکشاف، اپنی نوعیت کا ایک بڑا اسکینڈل ہے، جس کا جرمن معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ کیونکہ اس وقت مرغی سمیت دیگر جانوروں کے گوشت اور دودھ کا تقریباً سارا کاروبار بند پڑا ہے اور جرمنی کی مارکیٹوں سے لے کر امریکی اور برطانوی مارکیٹوں میں لوگ گائے کے دودھ اور مرغی کے انڈوں اور گوشت کو بالکل بھی ہاتھ نہیں لگا رہے ہیں۔
یورپی عوام انتہائی خوف زدہ ہیں جبکہ جرمن پولٹری صنعت پر مکمل انحصار کرنے والے برطانوی معاشرے میں، اخبارات و جرائد کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹس نے مزید خوف و ہراس پھیلا دیا ہے، جس کے بعد بیشتر برطانوی مارکیٹوں، بیکریوں اور سپراسٹورز پر نہ صرف انڈوں اور مرغی کے گوشت کی فروخت بند کر دی گئی ہے، بلکہ وہاں انڈوں اور مرغی کے گوشت سے تیار کر دہ اشیائے خورونوش کی فروخت بھی شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔
کاروباری دنیا کے حوالے سے مشہور برطانوی جریدے ”دی گروسر“ کا اپنی ایک رپورٹ میں ماننا ہے کہ جرمنی میں زہریلے مادوں کی آمیزش والے انڈوں، دودھ اور مرغی کے گوشت کی خبروں کی اشاعت کے بعد، برطانیہ میں کُہرام مچا ہوا ہے جبکہ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ ساتھ خود برطانوی وزارت صحت کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ ایک حقیقت ہے اور اس کو سلجھانا مشکل ہے۔
ماہرین اور وزارت صحت کے حکام کی کوشش ہے کہ ایسی تمام مشتبہ اشیائے خورونوش کی فروخت کو رکوا دیا جائے گا، جو صحت کے لئے ضرر رساں ہیں۔ جرمن جریدے ”بلڈ“ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ جرمن وزارت زراعت اور صحت کے ماہرین اور حکام اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے، اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے، تمام مقامی ڈیری پروڈکٹس کو بیرون ممالک جانے سے روک دیا ہے، جس کے بعد اندرونی طور پر ان اشیائے خورونوش کو چیک کیا جا رہا ہے جبکہ پانچ ہزار کے لگ بھگ ایسے پولٹری فارمز اور گوداموں کو سیل کر دیا گیا ہے، جو ملکی اور بیرونی ضروریات کو پورا کر رہے تھے۔
جرمنی کے وزیر زراعت ایلس ایگنر کا کہنا تھا کہ صورت حال جلد واضح ہو جائے گی۔ اس کیلئے کام کیا جا رہا ہے اور تمام مصنوعات کو چیکنگ کے مرحلے سے گزارا جا رہا ہے۔ جرمنی کی وزارت زراعت کے ترجمان ایشلے کا ماننا ہے کہ تمام ڈیری پروڈکٹس کو جانچ کے مرحلے سے گزارا جا رہا ہے اور جلد ہی معاملات کو وسیع پیمانے پر دیکھا جائے گا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ کئی ریاستوں میں گائے کے دودھ اور مرغی کے گوشت اور انڈوں میں زہریلا مادہ پایا گیا ہے، جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے اور اس کی مکمل جانچ کی جارہی ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، مرغیوں کو دی جانے والی خوراک میں زہریلے مادے شامل تھے، جو نہ صرف پرورش پانے والے چوزوں بلکہ مرغیوں کے انڈوں میں بھی منتقل ہو گئے تھے، جس کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ کئی ممالک جن میں چین، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ سمیت کچھ مغربی ممالک بھی شامل ہیں، وہاں سُور کا گوشت مرغیوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ مرغیاں جلد نشوونما پا سکیں۔ اگرچہ کہ دنیا بھر میں جرمن انڈوں، گوشت اور دودھ کو استعمال کرنے والے صارفین ڈرے سہمے ہوئے ہیں، لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زہریلا مادہ انسانی صحت کے لئے اتنا خطرناک نہیں ہے، جتنا کہ بیان کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں برطانوی کوئنز یونیورسٹی بلفاسٹ کے پروفیسر کرس ایلیٹ کا کہنا ہے، اگرچہ کہ ان اشیائے صرف میں ڈائی اوکسین پایا گیا ہے، لیکن اس کے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کم ہوں گے۔ تاہم کئی ماہرین، اس ضمن میں کوئی رسک لینا نہیں چاہتے۔ ان کا ماننا ہے کہ اصل صورت حال بعد میں سامنے آئے گی، لیکن تمام معاملات کی جانچ پڑتال ہونا ضروری ہے۔
جرمن جرائد و اخبارات کے ساتھ ساتھ امریکی اخبارات و جرائد نے بھی اس ضمن میں اپنی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ جرمنی میں حکام کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں، کُل پولٹری فارمز جن کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے، ان میں مرغیوں کیلئے تیار شدہ خوراک جس کی مقدار 150,000 ٹن بتائی جاتی ہے، قبضے میں لے لی گئی ہے۔
حکام کا یہ بھی ماننا ہے انہیں مرغیوں کی خوراک سے لے کر دودھ اور مویشیوں کے گوشت میں سوائن فلو کے جراثیم کی موجودگی کا بھی خدشہ ہے۔ اس لئے انتہائی سخت جانچ پڑتال کی جائے گی، تاکہ کسی قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ کیونکہ یہ عوام کی صحت کا معاملہ ہے۔
جرمن اخبار ”ویلٹ“ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام نے تفتیشی افسران کے ساتھ مل کر کارروائی کرتے ہوئے انڈے اور مرغی کے گوشت کی تجارت کرنے والی معروف جرمن کمپنی Harles & Jentzschکے کئی پولٹری فارمز سیل کر دیئے ہیں اور اس بات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ جرمن کمپنی کو اس بات کا بھرپور علم تھا کہ اس کے پولٹری فارمز کے انڈوں اور مرغیوں کے گوشت میں ڈائی اوکسین جیسے زہریلے مادے کی موجودگی ایک سچ ہے، لیکن کمپنی نے مجرمانہ غفلت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے، اس خبر کو چھپایا اور متاثرہ اشیائے خورونوش کو برآمد کیا۔
جرمن حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں ہر ممکن طریقہ کار کا استعمال کریں گے اور وہ ابھی تک 1999ء میں بیلجیم کی ایک کمپنی کی جانب سے مرغی کی فِیڈ میں استعمال شدہ انجن آئل کی ملاوٹ کے واقعے کو نہیں بھولے ہیں، جس کا اسکینڈل عام ہوتے ہی بیلجیم کی کمپنیوں کی جانب سے برآمد کئے جانے والے انڈوں اور مرغی کے گوشت پر دنیا بھر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
کیونکہ زہریلی خوراک کے استعمال سے جلد نشوونما پانے والی مرغیوں میں انتہائی خطرناک کیمیکل کی شرح بڑھ گئی تھی، جس کے باعث نہ صرف ان مرغیوں کے گوشت، بلکہ انڈوں میں بھی زہریلا مواد پایا گیا تھا، جس کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کا ماننا تھا کہ اس سے انسانوں کی صحت پر ناقابل تلافی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جرمن وزارت زراعت کے ترجمان نے مقامی اخبارات وجرائد میں شائع ہونے والی ان رپورٹس کی سختی سے تردید کی ہے کہ مرغیوں اور مویشیوں کی خوراک میں پہلے سے زہریلا کیمیکل شامل تھا اور اس کے مسلسل استعمال سے یہ کیمیائی مادہ انڈوں، دودھ اور گوشت میں منتقل ہو گیا ہے، جس سے اسکینڈل نے جنم لیا۔ تاہم جرمن ماہرین اور معیشت دانوں کا ماننا ہے کہ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد، بند کئے جانے والے پولٹری فارمز اور روکی جانے والی برآمدات کے باعث، جرمنی کو کم از کم ہر ہفتے 80ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔
٭٭٭