[]
سوال:- ایک بیوہ خاتون مقدار نصاب سے زیادہ سونے کی مالک ہے ، ان کی کوئی اولاد بھی نہیں ، ذاتی ضروریات کے لیے ماہانہ کرایہ وصول ہوتا ہے ، جوواجبی خدمات کو پورا کرتاہے ،
زکاۃ دینے کے لیے کوئی پس انداز رقم موجود نہیں رہتی ، اگر سونا بیچ کر زکاۃ ادا کی جائے ، تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ پورا سونا بھی ختم ہو جائے گا ۔ ( ریاض الدین، قاضی پیٹ)
جواب:- جب مقدارِ نصاب سونا ان کے پاس موجود ہے ، تو زکاۃ ان پر واجب ہوگئی ؛ کیوں کہ یہ ان کے مال دار ہونے کا معیار ہے ، زکاۃ کی شرح اتنی کم ہے کہ اسے ادا کرنا چنداں دشوار نہیں ،
اگر اسے بروقت ادا نہیں کرسکیں، تو تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ حساب کرتی رہیں اور چند سالوں کے بعد سونے کا کچھ حصہ فروخت کرکے زکاۃ ادا کردیں ،
دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی روز مرہ کی کچھ ضروریات کے لیے سونا فروخت کرلیں ؛تاکہ نصاب کے بقدر ملکیت باقی نہ رہے ، تیسرے کچھ سونا فروخت کر کے زمین یا کوئی ایسی چیز خرید کرلیں ،جو اموالِ زکوۃ میں نہیں ہیں ، اور بہ وقت ضرورت ان کو فروخت کرلیں ،
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی میں پورا سونا ہی فروخت ہو جائے گا ؛ کیوں کہ جب زکاۃ ادا کرتے کرتے ملکیت مقدارِ نصاب سے کم ہوجائے گی ، تو پھر زکاۃ واجب نہیں رہے گی ، اصل یہ ہے کہ ہمت دلائی جائے اوراللہ پر یقین بڑھایا جائے کہ انسان کی پرورش سونا چاندی نہیں کرتا ، خدا کرتا ہے ۔