لیڈی ڈاکٹر کے ذریعہ چھوٹے بچہ کا ختنہ

[]

سوال: آج کل بچوں کا ختنہ کم عمری میںہسپتال کے اندر کرا دیا جاتا ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ دو تین سال کی عمر میں ہی ختنہ ہو جائے، اس میں آسانی ہوتی ہے اور زخم جلد ہی خشک ہو جاتا ہے،

میرے دوست نے ہاسپیٹل میں اپنے بچے کا ختنہ کرایا؛ لیکن ختنہ کرنے والی ایک غیر مسلم عورت تھی، کیا یہ ختنہ درست ہوگا؟ (کبیر الدین، حمایت نگر)

جواب:ختنہ کرنا اگرچہ سنت ہے؛ لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک علاج اور چھوٹا سا آپریشن ہے، علاج مسلمان سے بھی کرایا جاسکتا ہے اور غیر مسلم سے بھی،

اوراگر اپنی جنس کا معالج دستیاب نہ ہو تو حسب ضرورت مرد عورت کااور عورت مردکا بھی علاج کر سکتے ہیں،

اتنے کم عمر بچوں میں نہ شہوت پائی جاتی ہے ،اور نہ اس کے قابل ستر حصہ پر نظر پڑجانا شہوت کا باعث ہوتا ہے؛ اس لئے یہ ختنہ درست ہو گیا؛

البتہ کوشش ہونی چاہئے کہ کسی مرد ڈاکٹر سے ختنہ کرایا جائے۔ فلا بأس بالنظر الیٰ العورۃ لأجل الضرورۃ فمن ذالک أن الخاتن ینظر ذالک المواضع والخافضۃ کذالک تنظر لأن الختان سنۃ وھو من جملۃ الفطرۃ في حق الرجال لا یمکن ترکہ (المبسوط ۱۰؍۱۵۶)



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *