[]
بچپن سے جو صدمہ، خوف اور غیر یقینی کی کیفیت ان کے اندر سرایت کر چکی ہے وہ روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے بچوں خصوصا بیٹی میں منتقل ہو رہی ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں میں بڑھتے ہوئے تنازعات، جارحیت کے واقعات اور جنگوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ان بحران ذدہ علاقوں میں رہنے والے افراد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔دنیا بھر میں مقامی اقلیتیں ہمیشہ سے امتیازی سلوک کا شکار رہی ہیں۔ نو آبادیاتی نظام کے آغاز سے بڑے پیمانے پر نسل کشی، نقل مکانی اور غلامی تک ظلم اور صدمات کی ایک طویل فہرست ہنوز جاری ہے۔ اگرچہ اب کئی ممالک میں اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جا چکی ہے مگر ان کی کئی نسلوں پر ٹراما یا صدمے کے اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔
فی الوقت دنیا بھر میں کہیں اقلیتی افراد ظلم و بربریت کا شکار ہیں تو کہیں جنگ و جدل کا بازار گرم ہے۔ بڑھتی ہوئی خون ریزی، فساد اور جبری گمشدگی سے ان بحران ذدہ علاقوں میں رہنے والے افراد ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں جس میں ایک قابل ذکر تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔ ماہرین کے مطابق براہ راست تشدد کا سامنا کرنے، بمباری، ہلاکتوں، اور گھر بار کی تباہی کے مناظر دیکھنے سے ان افراد کو جو شدید صدمہ پہنچتا ہے اس سے نا صرف ان کی اپنی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے اثرات ان کی اگلی نسل میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں اسے “ٹرانس جنریشنل ٹراما” کہا جاتا ہے۔
ٹرانس جنریشنل ٹراما کیا ہے؟
ڈاکٹرعلی جاوید کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ لیبارٹری فار ٹرانس لیشنل ریسرچ ان ایسپوژرز اینڈ نیورو سائیکاٹرک ڈس آرڈرز نینکی انسٹی ٹیوٹ وارسا کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر علی جاوید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرانس جنریشنل ٹراما نیورو سائنسز میں ایک ابھرتا ہوا تصور ہے جس پر کافی تحقیق کی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی صدمے کے اثرات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید کہتے ہیں کہ آسان الفاظ میں اسے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر والدین بننے سے پہلے مرد اور عورت زندگی میں کسی شدید ذہنی دباؤ، صدمے یا تناؤ کا شکار ہوئے ہوں تو اس کی نفسیاتی علامات ان کے بچوں میں بھی ظاہر ہوں گی۔ اس کے لیے ہر گز یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے بھی اپنی زندگی میں انہی ہولناک تجربات سے گزریں۔
کسی صدمے کے اثرات بچوں میں کس طرح منتقل ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر جاوید کے مطابق ایسے افراد جو زندگی میں کسی انتہائی تکلیف دہ تجربے سے گزرے ہوں یا انھوں نے مسلسل صدمات کا سامنا کیا ہو ان کا مستقبل میں طرز عمل غیر صحت مندانہ ہو سکتا ہے۔ جس سے خاص طور پر والدین کے ساتھ ان کے تعلقات اور خاندانی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ان کے بچوں کو غفلت اور منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح بچپن سے ہی ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ تنہائی یا احاس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر علی جاوید نے اپنی ٹیم کے ساتھ ان اثرات پر سالہا سال تحقیق کی ہے وہ بتاتے ہیں کہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ نفسیاتی تناؤ اور صدمے سے تولیدی خلیات، انڈے اور سپرمز براہ رست متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ حمل میں زندگی کا آغاز جنین سے ہوتا ہے جو سپرم اور انڈوں کی فرٹیلائزیشن سے بنتا ہے۔ لہذا کسی صدمے سے جنین پر پڑنے والے منفی اثرات اولاد میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹرعلی جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے سالہاسال سے جاری کئی دیگر تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے ثا بت کیا ہے کہ بچپن میں کسی صدمے سے صرف مریض کی ذہنی صحت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ ان کے بچوں میں بھی کئی طرح کے نفسیاتی عوارض جیسے ڈپریشن، انزائٹی، ذہنی بگاڑ اور خطرات سے کھیلنے کے رویے نوٹ کیے گئے ہیں۔ اس سے بچوں میں میٹابولک اور امیونولوجیکل تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔
ڈاکٹرعلی جاوید کہتے ہیں کہ آسان الفاظ میں آپ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بچہ پیدائش کے وقت کوری سلیٹ لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی جذباتی و نفسیاتی ہسٹری پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ کسی نفسیاتی صدمے سے متاثرہ افراد کے ساتھ ان کے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت بھی شدید خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔
جنریشنل ٹراما کے متاثرین کیا کہتے ہیں؟
28 سالہ عائشہ بلوچ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ ان کے والد 2005 میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے جب وہ صرف 9 برس کی تھیں۔ عائشہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ابتدائی کئی سال وہ اور ان کا خاندان امید کے ساتھ جیتے رہے کہ والد کسی روز لوٹ آئیں گے۔ وہ کہتی ہیں، “میرے لیے یہ ایک ناقابل بیان صدمہ تھا جس سے لڑتے میں نے 19 برس گزار دیے۔ ہمیں لوگوں کے ہر طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر ہمارے پاس والد کی گمشدگی، بازیابی یا موت کسی کا کوئی بھی جواب نہیں تھا۔”
عائشہ اب دو بچوں کی ماں ہیں۔ انھیں جنریشنل ٹراما سےمتعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ وہ دیگر ماؤں کی طرح اپنے بچوں کی درست پرورش نہیں کر پارہیں۔ بچپن سے جو صدمہ، خوف اور غیر یقینی کی کیفیت ان کے اندر سرایت کر چکی ہے وہ روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے بچوں خصوصا بیٹی میں منتقل ہو رہی ہے اور وہ بے بس ہیں۔
ڈاکٹر علی جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران جنگوں اور خونریزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عراق، افغانستان، یوکرین، غزہ، کشمیر اور کئی ملکوں میں عشروں سے جاری خانہ جنگی کے صدماتی اثرات اب نئی نسل کو منتقل ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید کے مطابق 2000 کے اوائل میں اس حوالے سے ایک سائنسی ماڈل تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد کسی بحران ذدہ علاقے میں بسنے والے افراد کی ذہنی صحت پر پڑنے والے ابتدائی اثرات کو کم کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے متاثرہ افراداور بچوں کو نفسیاتی ” فرسٹ ایڈ” فراہم کی جاتی ہے اور پھر انھیں کسی بہتر ماحول میں منتقل کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بہتر ماحول میں رہنے سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;