ماں باپ مرتے و جیتے قرض لے کر بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں، قسمت اچھی رہی تو ٹھیک ہے ورنہ۔۔۔۔

[]

سوال:- آج کل لڑکیوں کے پیام بڑی مشکل سے ملتے ہیں ، ماں باپ مرتے وجیتے قرض لے کر بچیوں کی شادیاں کرتے ہیں ، قسمت اچھی رہی تو ٹھیک ہے ورنہ بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں ، اب تو غیروں کی طرح جلا یا بھی جارہا ہے ،

مزید یہ کہ نہ تو طلاق دی جاتی ہے ، اور نہ ہی خلع لینے دیتے ہیں ، لٹکاکر رکھتے ہیں ، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ نکاح کے وقت ہی نکاح نامہ میں لکھ دیا جائے کہ اگر لڑکا یا لڑکی کا نباہ نہ ہو تو جو بھی فریق چاہے اور مطالبہ کرے تو دوسرے فریق پر لازم ہوگا کہ طلاق یا خلع دے دے ؟ (محمد شاہ نواز، بارکس)

جواب:- یہ واقعی بڑی تکلیف دہ صورتحال ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی ہے ، کہیں بہو کے ساتھ بد سلوکی ہوتی ہے ، کہیں بوڑھی ساس کے ساتھ اور کہیں یتیم نندوں کے ساتھ ، اور ان سب کی وجہ دین سے دوری اور اللہ سے بے خوفی ہے ؛ اس لئے پورے معاشرہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے ،

رہ گئی وہ تجویز جو آپ نے لکھی ہے تو وہ قابل عمل ہے اور ہندوستان جیسے ملک میں جہاں عدالت کے کثیر اخراجات اور طویل کارروائیاں لوگوں کے لئے سخت پریشانی کا باعث ہوتی ہیں، ایسی تجویزوں پر عمل کرنا مناسب ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے مرتب کردہ نکاح نامہ میں اس کا خیال رکھا ہے ۔

اس کی دو صورتیں ہیں : اول : تحکیم ، دوسرے : تفویض طلاق – تحکیم یہ ہے کہ فریقین کسی ادارہ جیسے دار القضاء ، شرعی پنچایت کو یا کسی معتبر دیندار شخص کو نکاح کے وقت ہی حَکم بنادیں کہ جب ہمارے درمیان کوئی اختلاف ہو تو وہ شریعت کے مطابق جو چاہے فیصلہ کردیں ہم دونوں اس کے پابند رہیںگے ، اس طرح نہ صرف عورت کے لئے شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کی گنجائش ہوگی ؛

بلکہ وہ دوسرے حقوق بھی حَکم کے ذریعہ حاصل کرسکے گی ، – تفویض طلاق کی صورت یہ ہے کہ نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد یا اس سے پہلے شوہر سے لکھا لیا جائے کہ عورت کو اپنے آپ پر ایک طلاق بائن واقع کرنے کا حق حاصل ہوگا ،

یہ تفویض طلاق مشروط بھی ہوسکتی ہے کہ فلاں فلاں شرط پائے جانے کی صورت میں عورت کو حق طلاق ہوگا ، اور بیوی کے بجائے دار القضاء یا کسی ادارہ یا کسی دیندار شخص کو بھی حق طلاق تفویض کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کے نزدیک شوہر کی طرف سے بیوی پر زیادتی کرنا ثابت ہوجائے تو اسے اس پر طلاق واقع کردینے کا حق ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ سماجی طور پر تحکیم یا تفویض کو رواج دیا جانا چاہئے ؛ تاکہ ظلم و زیادتی کا مداوا ہوسکے ۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *