[]
حیدرآباد: حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے لیے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے خلاف تلنگانہ کانگریس کی جانب سے مجلس بچاؤ تحریک کی حمایت کرنے کے امکانات موہوم نظر آ رہے ہیں۔ کانگریس قائدین کا کہنا ہے کہ وہ ریاست میں دوسرے پارلیمنٹ حلقوں کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائے رکھنے کی امید کر رہے ہیں۔
ایم بی ٹی کے قائد امجد اللہ خان خالد کو گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں یاقوت پورہ اسمبلی حلقہ سے مجلسی امیدوار کے ہاتھوں بہت کم فرق سے ناکامی کا منہ دیکھا پڑا تھا اس وقت کانگریس کا احساس تھا کہ وہ حیدرآباد لوک سبھا سیٹ کے لئے ایم بی ٹی کی حمایت کرنا چاہیے۔
امجد اللہ خان خالد کو صرف 878 ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی تھی۔ کانگریس کے ایک سینئر قائد نے کہا کہ پارٹی حیدرآباد لوک سبھا سیٹ کے لیے تین ناموں پر غور کر رہی ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایم بی ٹی کے امجد اللہ خان کا نام بھی اس میں شامل ہے تو ان کا جواب نہیں تھا۔
کانگریس قائدین کے مطابق صرف راہول گاندھی ہی مجلس سے مدد نہیں چاہتے ہیں کیونکہ اویسی نے پچھلے سالوں میں پارٹی کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ چند قائدین کا ماننا ہے کہ کہ ریاستی قائدین مجلس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے تیار ہیں۔
تلنگانہ میں کانگریس دیگر سیٹوں پر مدد کے بدلے مجلس کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو درست کرنے کی امید کر رہی ہے تاہم مجلس نے پچھلی دہائی کے دوران بی آر ایس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھایا تھا۔
ابتدا میں موصولہ اطلاعات کے مطابق کانگریس نے کہا تھا کہ حیدرآباد حلقہ پارلیمنٹ کے لیے مجلس کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے ایم بی ٹی کی حمایت کرے گی۔ مگر حالیہ عرصہ کے دوران کانگریس کے سینئر لیڈر نے واضح طور پر کہا کہ ان کی پارٹی مجلس کی مخالفت میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے اور اشارہ دیا تھا کہ وہ اویسی کی مدد لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس سے قبل متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے بعد، اسدالدین اویسی نے 2014 میں ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد کے سی آر سے تعلقات استوار کے تھے۔ دونوں نے ہمیشہ یہ بات دہراتے رہیں یہ تعلقات دوستانہ ہیں اور 2018 اور 2023 اسمبلی انتخابات میں بھی ایک دوسرے کی حمایت کی تھی۔
اویسی نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں سے بی آر ایس کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔ تاہم اس کے باوجود کانگریس گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں کامیاب رہی اور کے سی آر کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تاہم، اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو مجلس بھی کانگریس کے ساتھ مشروط دوستی کر سکتی ہے۔