[]
حمید عادل
سونا، سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوا کرتا ہے … سوہم سب سوتے ہیں اورہمیں سونا بھی چاہیے کیوں کہ سونے والے ہی جاگا کرتے ہیں …ہم سونے کے بعدہر صبح جاگ تو رہے ہیں لیکن افسوس! خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے ہیں۔ ویسے نیندبھی بڑی عجیب شئے ہے،کچھ لوگ سوتے سوتے بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ بات کرتے کرتے سو جاتے ہیں۔ کچھ حضرات کے تعلق سے ہم کہہ ہی نہیں سکتے کہ وہ آیا سورہے ہیں کہ جاگ رہے ہیں کیوںکہ سوتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں کی کھڑکیاں ہی کیا دروازے تک کھلے رہتے ہیں۔ایک دن ہم کسی موضوع پرچمن بیگ سے گفتگو کررہے تھے لیکن جب ان کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملاتو ہم نے ان کی نیم گنجی کھوپڑی پر ہلکا سا ہاتھ کیاپھیرا وہ ’’ کون ہے؟ کون ہے ؟‘‘کا زور دارنعرہ مارکرجاگ اٹھے۔اس سے قبل کہ ہم کچھ کہتے، صفائی بیان کرنے لگے:یہ مت سمجھنا کہ میں سورہا تھا، میںنے تمہاری ساری باتیںسنی ہیں … ہم نے کہا: کہو تو ہم نے کیا کیا کہا ؟ کھسیانی ہنسی کے ساتھ فرمانے لگے: اب تمہاری ہی باتیں تمہارے روبرودہرانا کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا…
کچھ لوگوں کو خوابوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتاتو کچھ اس لیے سوتے ہیں کہ کچھ خواب ہی دیکھ لیں جب کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس سوائے خوابوں کے کچھ نہیں ہوتا:
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
آشفتہ چنگیزی
کچھ لوگ اس ادا سے سوتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ سورہے ہیں کہ کسی ضروری فائل پر دستخط کررہے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس طرح سوتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دنیا سے بے خبر اپنے کام میں بے انتہا مصروف ہیں ۔
ایک ٹیچر پڑھا رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بچے پر پڑی جو اپنے روبرو کتاب رکھ کر سور ہا تھا۔ ٹیچر نے اسے جگاکر کہا:تم کلاس میں کیوں سو رہے ہو؟
بچے نے معصومیت سے جواب دیا :مس جی! آپ کی آواز ہی اتنی پیاری ہے، بالکل لوری جیسی کہ اسے سن کر مجھے نیند آگئی۔
ٹیچرنے اپنی آواز کی تعریف سن کرمن ہی من مسکراتے ہوئے کہا :اچھا!اگر میری آواز اتنی ہی پیاری ہے تو پھر دوسرے بچوں کو نیند کیوں نہیں آئی؟
بچے نے برجستہ کہا:مس جی! میرے سوا دوسرا کوئی بچہ غور سے سن ہی نہیں رہا ہے…
سونا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ایسا سونا کہ جب آپ جاگیں تو سر میں چاندی ہوجائے، بری بات ہے۔ ایک مشہور نغمے کے بول ہیں : جوانی نیند بھر سویا، بڑھاپا دیکھ کر رویا‘‘
سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے
اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے
صبا اکبرآبادی
کہتے ہیں کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیے نیند کا نہ آنا سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ خاص طور پرعالیشان محل نما بنگلوں اور نرم و گداز بستروں پرلیٹنے والے توبس لوٹتے ہی رہ جاتے ہیں جبکہ مزدور تھک کر کہیں بھی ، کبھی بھی سوجاتے ہیں۔ معروف شاعر منور رانا نے کیا خوب کہا ہے :
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
ہم نے اکثر عشق کے ماروں کو نیند نہ آنے کی شکایت کرتے سنا ہے۔ ایک عاشق نے اپنی معشوقہ سے کہا :جانم !مجھے رات بھر نیند نہیں آتی۔عاشق کی ماڈرن معشوقہ نے اترا کر جواب دیا:ڈارلنگ! تمہیں انسومنیا Insomnia ہوگیا ہے۔
رات کو سونا نہ سونا سب برابر ہو گیا
تم نہ آئے خواب میں آنکھوں میں خواب آیا تو کیا
جمیل مانک پوری
ایک شخص نے ایک بزرگ کے ہاں پہنچ کر کہا کہ مجھے رات بھر نیند نہیں آتی، کوئی نسخہ یا وظیفہ بتا دیں۔ بزرگ نے کہا: تم دو ہزار مرتبہ ایک خاص کلام کی تسبیح پڑھا کرو۔ وہ شخص چند دن بعددوبارہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا ، بزرگ نے پوچھا :سنائو تمہیں نیند آئی؟ اس شخص نے کہا:جناب! میں نے ایک ہزار مرتبہ ہی تسبیح پڑھی تھی کہ مجھے نیند آ گئی اورمیں نے پھر کڑک چائے بنا کر پی تا کہ دو ہزار کی تسبیح پوری کر کے سوجائوں۔
جس کسی کے دل میں دیناوی محبت ہو، اس کا سونا ، آسان نہیں ہوتا، چاہے اس کے آس پاس کتنا ہی سونا پڑاہو وہیں مالک حقیقی سے حقیقی محبت رکھنے والے کے پاس چاہے ایک رتی سونا نہ ہو، اس کے لیے سونا بڑا آسان کام ہوا کرتا ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ سونے کے لیے گھر میں سونے کا ہونا قطعی ضروری نہیں ہے۔
ایک چور نے گھر کے مالک کو جگایا اور پوچھا: ’’جلدی بتاؤ کہ سونا کدھر ہے؟‘‘ گھر کے مالک نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا:’’ پورا گھر خالی پڑا ہے، کہیں بھی سوجاؤ۔‘‘
کسی کا نیند سے جاگنا ، جاگنا نہیں ہوتا، آدمی تو وہ ہے جو سدا بیدار رہے … یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جب سارے سوتے ہیں تو وہ جاگتے ہیں … رات کا پچھلا پہر تھا، دنیا میٹھی نیند میں تھی، ایک بادشاہ اپنی نیند قربان کرکے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ کسی راستے پرانہیں سرکاری چراغ کے نیچے ایک لڑکا کھڑا نظر آیاجواپنا سبق یاد کر رہا تھا۔ جب بادشاہ کو یہ احساس ہوا کہ اس لڑکے کی اس بے بسی کا وہ خودذمے دار ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا:’’میں ہی تمہاری اس حالت کا ذمے دار ہوں، اے لڑکے مجھے معاف کردے۔ اگر تو نے میری شکایت اللہ تعالیٰ کے دربار میں کردی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔‘‘ساتھ ہی اس نے فرمان جاری کیا:’’اس بچے اور اس کی والدہ کو شاہی محل میں جگہ دی جائے، اسے شہزادوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جائے۔‘‘ دنیا اس بادشاہ کو سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔ ایک طرف ماضی کاایسا حساس بادشاہ ہے تو دوسری طرف ہمارے آج کے بے حس حکمران ہیں جو وعدوں کی لوریاں سنا سنا کرساری قوم کو ایک عرصے سے سلا رہے ہیںاور گذشتہ پانچ سال میں تو ہمارے حکمرانوں نے ملک کی ترقی ہی کو سلا دیا ہے ۔
اب ہم کیا بتائیں کہ دنیا کے حالات بڑے عجیب و غریب ہوکر رہ گئے ہیں ، ڈاکو جاگ رہے ہیں تو پولیس سو رہی ہے، کہیں ضمیر سورہا ہے تو شعوربیدار ہونے کو راضی نہیں ہے۔سائنس کہتی ہے کہ سات آٹھ گھنٹے کی نیند نہ ملنے سے بہت ساری بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں جبکہ جدید تحقیق کا دعویٰ ہے کہ زیادہ سونے کی بدولت بھی آدمی بیمارہوسکتا ہے اور آج قوم سوسو کر غالباً بیمار ہوچکی ہے بلکہ قوم کو مسلسل سوتا ہوا دیکھ کر خوف سا ہوتا ہے کہ کہیں یہ نیند ،ابدی نیند تو نہیں ہے ؟
ہماری غفلت کی نیند کی یہ انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ماہ رمضان جیسے بابرکت ماہ سے ہم کوئی فیض حاصل نہیں کرپارہے ہیں …ایسے شرمناک نظارے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لڑکیاں ماہ رمضان میں اپنے اپنے بوائے فرینڈس کے ساتھ پارکوں میں گھوم رہی ہیں ، …کہیںمسلم لڑکے لڑکیاں گروپ کی شکل میںسڑک کنارے ٹھنڈے مشروبات سے محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں کوئی مسلم فیملی چاٹ بھنڈار کے مزے لوٹتی نظر آتی ہے… ہائے! کہاں گئے وہ دن کہ جب غیر مسلم حضرات تک ماہ رمضان کا احترام کرتے ہوئے کھلے عام کھانے پینے سے پرہیز کیا کرتے تھے اور آج ہم خود اس ماہ مبارک کے تقدس کو پامال کرتے پھررہے ہیں …
ہماری گمراہی ، گمراہ قوموں کوگویا توانائی بخش رہی ہے …ایک موقع پر آپ ؐنے ارشاد فرمایا: عنقریب گمراہ قومیں تمہارے خلاف مجتمع ہوجائیں گی جیسا کہ بھوکے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک صحابی نے پوچھا: کیا ان دنوں ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سمندر کے جھاگ کی مانند ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب و دبدبہ نکال دے گا۔ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ، اس کمزوری کا سبب کیا ہوگا؟آپؐ نے فرمایا: دنیا سے محبت اور موت سے خوف…آج ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا رعب، غیروں کے دلوں سے نکل چکا ہے ، تبھی تو کوئی ہمیں سجدے کی حالت میں لات مارنے کی جرأت کرپارہا ہے …
چند دن قبل ہم نے شہر کے کسی آٹو پر لکھا دیکھا ’’ ہارن آہستہ بجائیں، قوم سورہی ہے ‘‘یہ با معنی سلوگن ہم پربڑاگہرا اثر کرگیا، کیوںکہ قوم واقعی سو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جگہ جگہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سلایا جارہا ہے۔ مزے کی بات تویہ ہے کہ جنہیں قوم کوجگانا چاہیے وہ خود بھی گہری نیند میں ہیں۔ قوم کو یوں گھوڑے بیچ کر سوتا ہوا دیکھ کرگھوڑے خان فرماتے ہیں :قوم کے لیے سونے سے زیادہ کوئی اورضروری کام نہیں ہے …
قوم سورہی ہے، اس بات کا احساس ہر گھڑی اور ہر جگہ ہوتا ہے ،بڑے بڑے معاملات تو کجا چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی پتا چل جاتا ہے کہ قوم کس گہری نیند میں ہے۔چند دن قبل ہم بس میں سفر کررہے تھے،اب یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مسافرین بس میں رہ کر بھی بے بس ہوا کرتے ہیں۔سیاسی قائدین کی طرح یہاں بھی نشست کے لیے خوب مارا ماری ہوتی ہے۔لہٰذا شرفا کا بس میں سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتاکیوںکہ یہاںہر مسافر ایک دوسرے کی نشست چھیننے کے درپے رہتا ہے۔ ہم جہاں کھڑے تھے وہاںسے ایک صاحب اٹھے تو ایک ہٹا کٹامسافر جو ہم سے دوربہت دور کھڑا تھا ، دوڑتا ہوا آیا اور ہمیں ڈھکیل کر ہمارے روبرو کھڑا ہوگیا ، تاکہ وہ خالی نشست جس پراصولاً ہمیں بیٹھنا چاہیے، قبضہ جما سکے۔ اس ظالم نے نہ صرف ہمیں ڈھکیلا بلکہ درشت لہجے میں وارننگ بھی دے ڈالی کہ میں تمہیں ہرگز اس نشست پر بیٹھنے نہیں دوں گا۔بحث و تکرار کے دوران جانے اسے کیا ہوا کہ وہ حیرت انگیز طور پر ہمارے راستے سے ہٹ گیا۔ہوسکتا ہے وہ ہمیں دیکھ کر ڈرگیا ہو کہ پتلی تو تلوار بھی ہوتی ہے لیکن جب میان سے نکلتی ہے تو پھر خونم خون ، لالم لال کردیتی ہے یا پھر اس نے سوچا ہوکہ دبلی پتلی جسامت کا حامل بروس لی ، ہڈی پسلی ایک کرنے میں بڑاماہر تھا۔ بہرکیف!قدرت نے اس کے ذہن کوکچھ ایسا الٹا کہ ہمیں نشست مل گئی لیکن ایک بات جو اس وقت کھٹکی وہ یہ کہ جب وہ ڈھیٹ مسافر بلاوجہ ہم سے الجھ رہا تھا تو بس میں کوئی مسافرایسا نہیں تھا جو ہماری تائید میں کم از کم دو لفظ ہی کہہ دے۔ قریب میں ایک جواں سال باریش صاحب بھی ایسے چپ تھے، جیسے انہیں اپنے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں … ہماری ایسی ہی خاموشی کی بدولت فلسطین جغرافیہ سے نکل کر تاریخ میں چلا گیا تو پھرہم کیا اور بس کی معمولی نشست کیا ؟ دریں اثنا بس ڈرائیور نے زور سے ہارن بجایا تو ہم من ہی من چیخ اٹھے:
’’ہارن آہستہ بجائیں،قوم سورہی ہے !‘ ‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰