[]
شمس نوید عثمانی
بہت سے ہندو مخلصین جو اسلام سے متاثر ہیں اور قرآن کی عظمت کے معترف ہیں، ان کو یہ شکایت کرتے ہوئے ہم نے سنا ہے کہ قرآن میں دیگر قوموں کا ذکر تو ہے لیکن ہمارا ذکر قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ ان کی شکایت کا جواب جب ہم طرح طرح کی تاویلوں سے دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ذرا غور کیجئے کہ کہیں ہم خود بھی غیر ارادی طور پر یا غیر محسوس طریقے سے قرآن پر یہ الزام عائد کرنے میں شریک تو نہیں بن رہے ہیں؟
شری گنگا پرشاد اپادھیائے نے عربی میں قرآن شریف کا مطالعہ کر کے اردو زبان میں ’’مصابیج الاسلام‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس کا ایک حوالہ ہم نقل کر رہے ہیں:
’’قرآن شریف میں کئی جگہوں پر تو یہ کہا ہے کہ خدا مختلف قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف نبیوں کو بھیجتا ہے لیکن خصوصاً کسی کا تذکرہ نہیں ہے۔ تماشے کی بات یہ ہے کہ جو پرانی قومیں ہیں اور جن کی تہذیب کی تواریخ ہزاروں سال پرانی ہے، جیسے ہندوستان، چین وغیرہ ان کا کچھ بھی اشارہ تک نہیں۔ گویا اس الہام سے جس کو قرآن یا کلام مجید کے نام سے پکارا جاتا ہے عام انسانی جماعت کا کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔۔۔‘‘ (مصابیح الاسلام۔ ص۴۳۔ مطبوعہ: ٹریکٹ و بھاگ، آریہ سماج چوک الٰہ آباد۔ مصنف: شری گنگا پرشاد اپادھیائے )
بیشک قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے لیکن اگر یہ صرف ۱۴۰۰ سال پرانی کتاب نہیں ہے بلکہ رہتی دنیا تک کے حالات و واقعات کا اس میں ذکر ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قوم کا اس میں ذکر نہ ہو جو دنیا کی قدیم ترین مذہبی قوم ہے اور نزول قرآن سے ہزاروں سال قبل سے آج تک بہت بڑی تعداد میں دنیا میں موجود ہے۔ یہ قرآن پر ایک الزام ہے۔ کیا ہم نے کبھی ہندو قوم کا نام یا تعارف قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ ٹھیک ہے، قرآن میں لفظ ہندو کہیں نہیں ملتا لیکن کیا لفظ عیسائی یا کرسچین ملتا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ عیسائیوں کا کبھی قرآن حکیم میں ذکر نہیں ہے؟ قرآن نے عیسائیوں کے لیے لفظ ’’نصاریٰ‘‘ استعمال کیا ہے۔ دنیا کا کوئی عیسائی اپنے آپ کو نصاریٰ نہیں کہتا لیکن ہم جانتے ہیں کہ نصاریٰ قرآن میں ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو آج اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو قوم آج اپنے آپ کو ہندو کہتی ہے اسے کسی اور نام سے قرآن حکیم نے موسوم کیا ہو۔
قرآن میں سب قوموں کے ناموں کی تحقیق ہی نہیں ہوئی
قرآن پاک میں بہت سی ایسی قوموں کا تذکرہ ملتا ہے جنھیں مفسرین آج تک متعین نہیں کر سکے۔ جیسے اصحاب الرس اور قوم تبع۔ خصوصاً صابئین کا ذکر تو جگہ جگہ کلام پاک میں مومنین، یہود اور نصاری کے ساتھ اس حیثیت سے کیا گیا ہے جیسے یہ بہت بڑی قوم یا دنیا کے منفرد گروہوں میں سے ایک ہوں۔ مثلاً:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾
ترجمہ: ’’بیشک جو لوگ مومن ہیں اور جو یہودی ہیں اور نصاریٰ ” ہیں اور صابئین ہیں۔ ان میں سے جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے، نہ ان پر کوئی خوف آئے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (البقرہ: ۶۲)
اس آیت میں صابئین کا ذکر مومنین، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن پاک میں جہاں جہاں صابئین کا ذکر ہے اِنہیں بڑی بڑی قوموں کے ساتھ ہے۔ اتنی اہمیت کی حامل قوم جس کا خصوصی تذکرہ قرآن پاک نے دنیا کی بڑی بڑی قوموں کے ساتھ ہی کیا ہے، اس کو ہم آج تک تلاش نہیں کر سکے۔ حالانکہ انھیں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح آج بھی اور آئندہ آنے والے زمانے میں بھی دنیا کی نمایاں مذہبی قوموں میں سے ہونا چاہیے۔ اگر ہم غور کریں تو تلاش کا دائرہ بہت محدود ہوگیا ہے۔ مسلمان، عیسائیوں اور یہودیوں کے علاوہ دنیا میں کتنی بڑی بڑی مذہبی قومیں اور ہیں؟ انھیں میں سے صابئین کو ہونا چاہیے۔ اب ذرا ایک اور زاویے سے تلاش کریں۔
قرآن مجید میں شریعت نافذ کرنے والے پیغمبران میں خصوصی اہمیت کے حامل جن پیغمبروں کا ذکر خصوصی اہمیت کے ساتھ بار بار آیا ہے، وہ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ مثلاً دیکھیے:
ترجمہ: اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور آپؐ سے اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ سے۔ اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا ” (سورہ احزاب: ۷)
ترجمہ : اللہ نے تم لوگوں کے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوحؑ کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپؐ کے پاس وحی کیا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو بھی حکم دیاتھا (سوره شوریٰ: ۱۳)
ہم دیکھتے ہیں کہ کلام پاک میں جن بڑی بڑی قوموں کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، وہ مسلمان، عیسائی، یہودی اور صابئین ہیں اور جن صاحب شریعت رسولوں کا تذکرہ جگہ جگہ ایک ساتھ آیا ہے وہ رسول اکرم حضرت محمد ﷺ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت نوحؑ ہیں۔ ان میں سے مسلمان حضرت محمد ﷺ کو اپنا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں، عیسائی حضرت عیسیٰؑ سے اور یہودی حضرت موسیٰؑ سے منسوب قوم ہیں لیکن صابئین؟ ہم نہیں جانتے۔
پھر سوچئے! حضرت محمد ﷺ کے امتی مومنین ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے عیسائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہودی اور حضرت نوح علیہ السلام کی قوم؟ کسی کو معلوم نہیں۔ کہیں اُنہیں کی قوم کو تو صابئین نہیں کہا گیا ہے؟
حضرت ابراہیمؑ کی قوم میں یہودی، عیسائی اور مسلمان سب شامل ہیں کیونکہ سب ان پر ایمان لاتے ہیں اور دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ہے جو حضرت ابراہیمؑ پر تو ایمان لائے اور ان کے بعد آنے والے کسی اور نبی پر ایمان نہ لاتی ہو۔
ضرت نوحؑ کی قوم ہی صابئین ہیں
تفسیر ابن کثیر میں عبدالرحمٰن بن زید کا یہ قول درج ہے کہ صابئین اپنے آپ کو حضرت نوحؑ کے دین پر بتاتے تھے۔
صابئین کے بارے میں حضرت عمرؓ، امام ابوحنيفہؒ، امام اسحاقؒ، ابوالزنادؒ، قرطبیؒ، علامہ ابن تیمیهؒ، امام غزالیؒ، امام راغبؒ، معالمؒ، ابن جریرؒ، ابن کثیرؒ، امام سهیلیؒ، علامہ شوکانیؒ، قاضی بیضاویؒ، عبد الماجد دریا بادیؒ اور سید سلیمان ندویؒ کے مختلف اقوال اپنی تشریحات کے ساتھ ہم ذیل میں اکٹھا کر رہے ہیں۔
ا۔ عراق کے اس مقام کے رہنے والے لوگ تھے جہاں ابراہیمؑ پیدا ہوئے تھے۔ (حضرت ابراہیمؑ کے مقام پیدائش اُر اور ہندوستانی تہذیوں، ہڑپا اور موہن جوداڑو کے کھنڈرات کی کھدائی سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دونوں تہذیبوں کے درمیان بہت قریبی روابط تھے )
۲۔ اہل کتاب تھے۔ (یہ تو قرآن میں صابئین کے تذکرے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ذکر جگہ جگہ آسمانی کتاب رکھنے والی قوموں کے ساتھ ہی آیا ہے۔ صابئین کے پاس حضرت نوحؑ کونسے صحیفے لائے، اس پر ہم آئندہ صفحات میں بحث کریں گے)
۳۔ لاالٰہ الا اللہ کہتے تھے لیکن مشرک تھے۔ (اس کا ذکر ہم آئندہ صفحات میں کریں گے کہ ہندو مذہب کا کلمہ بھی لا الٰہ الا اللہ ہے)
۴۔ یمن کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (یہ بات بھی تہذیبوں کے مطالعہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوستانی مذہب کے لوگ بہت بڑی تعداد میں یمن میں آباد تھے۔ وہاں آج بھی شیام اور ہند نامی قلعے موجود ہیں)
۵۔ صابئین عجمی (غیر عرب) نام ہے، عربی نہیں۔
۶۔ فرشتوں کی پجاری قوم تھی۔ (ہندو مذہب میں بہت سے دیوتاؤں کا تصور فرشتوں کا تصور ہے اور وہ ان کی پوجا کرتے ہیں)
۷۔ جماعتِ ستارگان اور نجوم کے معتقد تھے۔ (اقوام عالم میں شاید کسی قوم کو نجوم میں اتنی دلچسپی نہیں رہی ہے اور نہ ہے جتنی ہندوستانی ہندو قوم کو ہے)
۸۔ ستاروں کی پوجا کرنے والے۔ (مختلف ستاروں اور سیاروں کی پوجا کا تصور موجودہ ہندو مذہب کا جزو ہے)
۹۔ آگ کی پوجا کرنے والے۔ (آگ کی پوجا، ہَوَن، شادی، ارتھی وغیرہ ہندو قوم میں رائج ہے)
۱۰۔ زرتشت ایرانی النسل۔ (یہ لوگ بھی آگ کے پجاری تھے اور ہندو بھی ہیں۔ یہ بھی آرین تھے اور ادھر سے ہی آرین ہندوستان میں آئے)
۱۱۔ مذہباً دن میں کئی مرتبہ غسل کرنے والے۔ (مذہباً دنیا میں غسل کی اہمیت شاید سب سے زیادہ ہندومت ہی میں ہے۔ ان کی کوئی پوجا اشنان کے بغیر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ مختلف موقعوں پر اجتماعی اشنان بھی ہوتے ہیں)
۱۲۔ ایک دین سے نکل کر دوسرے دین میں داخل ہونے والے۔ (یہی ہندو قوم دین اسلام قبول کرے گی۔ یہ ہم پچھلے مضمون میں ثابت کر چکے ہیں)
۱۳۔ مائل ہونے اور جھکنے والے (تبدیلی قوم کے لیے احادیث میں اسی قوم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ پچھلے مضمون میں آچکا ہے)
اتنے متضاد اور مختلف تصورات صابئین کے بارے میں ہمارے مفسرین و علماء کے ہیں اور بہت تعجب کی بات ہے کہ وہ سب کے سب ہندو قوم پر فٹ ہوتے ہیں۔ چاہے مختلف ادوار میں مختلف مفسرین الگ الگ قوموں کو صابئین سمجھتے رہے ہوں لیکن اس دور میں یہ سب خصوصیات اس قوم میں ایک ہی جگہ پائی جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا خصوصیات یا عقائد رکھنے والی تمام جماعتیں ماضی میں نقل مکانی کر کے ہندوستان میں اکٹھی ہوچکی ہوں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اب بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش اس امر میں باقی ہے کہ صابئین کون ہیں، یہ ہوسکتا ہے کہ پچھلے ادوار میں مختلف گروہوں پر صابئین کی تعریف صادق آتی ہو، لیکن کم از کم موجودہ دور میں صابئین سے مراد کون سی قوم ہے، یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
بات نامکمل رہ جائے گی اگر ہم یہاں یہ نہ ذکر کریں کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بھی صابئین کو آرین نسل ہی مانتے تھے۔ ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہوں مندرجہ ذیل حوالے۔
’’۔۔۔ مسیحؑ ضرور ایسے بزرگ تھے جنہوں نے اس تعلیم کو غیر اسرائیلی لوگوں میں بالفاظ دیگر صابئین یا آرین قوموں میں بھی پہنچانے کی کوشش کی‘‘ (رساله الفرقان بریلی، شاہ ولی اللہ نمبر ص : ۳۰۴)
’’۔۔۔ ایران اس زمانے میں آرین یعنی صابی قوموں کا مرکز بن چکا تھا۔ اس سے پہلے ہندوستان کو یہ مرکزیت حاصل تھی۔۔۔‘‘ (رساله الفرقان بریلی، شاہ ولی اللہ نمبر ص: ۳۱۰۔ مضمون از مولانا عبید اللہ سندھی)
اور مولانا سید سلیمان ندوی کی گواہی بھی دیکھ لیجئے کو وہ صابئین کو قدیم ہندوستانی باشندے تسلیم کرتے تھے۔
’’۔۔۔مغضوب اور ضال جس طرح اہل کتاب میں ہیں، اپنی اپنی مزاجی کیفیت کی بناء پر وہی صورتیں متابعتہ شبہ اہل کتاب میں بھی ہیں جن کی دو جماعتوں سے ہم کو قرآن نے واقف کرایا ہے اور وہ مجوس اور صابئین ہیں جن میں ایرانِ قدیم اور ہند قدیم کے باشندے بھی داخل ہیں۔۔۔‘‘ (ماخود از خطبه صدارت مولانا سید سلیمان ندوی، سالانه اجلاس جمعیۃ العلماء بمبئی۔ فروری ۱۹۴۵ء بحوالہ ’’حکومت الٰہیہ اور علماء مفکرین‘‘ ص: ۲۱۴، مرتبہ ابومحمد امام الدین رام نگری، مطبوعہ مکتبہ نشاۃ ثانیہ حیدرآباد۔ ۱۹۴۶)
آخر میں یہ بھی سمجھ لیں ایک بہت ہی قلیل تعداد کا فرقہ عراق اور شام میں پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو صُبی کہتا ہے۔ یہ لوگ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بعد کے کسی نبی کو تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت عیسیٰؑ کو بھی نہیں مانتے۔ حضرت یحییٰؑ سے پہلے کے انبیاء کو مانتے ہیں۔ اس کا امکان ہے کہ قرآن نے صائبین ان کو بھی کہا ہو۔ لیکن سید سلیمان ندویؒ جیسے محقق اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے ہر ملک میں گھومنے والے اہل نظر نے صابئین ہندوستانی نسل کے لوگوں ہی کو مانا ہے، حالانکہ ان دونوں حضرات کے علم میں یہ فرقہ ضرور ہوگا۔ اس کے علاوہ اس صُبی فرقے میں سوائے اہل کتاب ہونے کے اور کوئی وہ خصوصیت نہیں پائی جاتی جن کو مفسرین علماء نے صابئین سے منسوب کیا ہے اور جن کو اسی مضمون میں ہم نقل کر چکے ہیں۔
ہماری رائے میں قرآن کی مختلف اصطلاحوں کا اطلاق چونکہ کبھی کبھی بیک وقت مختلف گروہوں کے لیے اور کبھی کبھی مختلف زمانوں میں مختلف گروہوں کے لیے بھی ہوتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس صُبی فرقہ پر بھی قرآنی اصطلاح صابئین کا اطلاق ہو لیکن ہندوستانی مذہبی قوم کا صابئین کے ذیل میں آنا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
٭٭٭