[]
حیدر آباد: صدر مجلس کل ہند اتحاد المسلمین اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ ہندوستان کے 17 کروڑ مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کی اپنی سیاسی قیادت ہونا ناگزیر ہے۔
انڈیا ٹی وی کے مشہور شو ”آپ کی عدالت“ میں رجت شرما کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، اویسی نے کہا کہ اگر جاٹ، ٹھاکر، برہمن، یادو، کرمی، کشواہا، مراٹھا، دلت اور او بی سی طبقات کے قائدین ہوسکتے ہیں، تو پھر مسلمان کے کیوں نہیں ہو سکتے؟
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے لوک سبھا میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ سب سے بڑے او بی سی ہیں۔ اویسی نے کہا ملک میں مسلمانوں کی آبادی 17 کروڑ ہے اور کیا یہ جمہوریت کے لیے اچھا ہو گا کہ ان کے پاس قیادت نہ ہو؟ اس سوال پر کہ وہ گزشتہ 28 سال سے سیاست میں ہیں اور پھر بھی وہ مسلمانوں کے لیے قیادت کیوں تیار نہیں کرسکے؟ تو اویسی نے جواب دیا آپ پچھلے 75 سالوں کی بیماری کو 28 سالوں میں ختم نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے سب سے بڑی غلطی اس وقت کی جب انہوں نے لکھنؤ میں اعلان کیا تھا کہ اب سے وہ سیاسی قیادت سے دور رہیں گے اور کانگریس پارٹی کی حمایت کریں گے مگر مسلمانوں نے جس پارٹی پر بھروسہ کیا تھا اس نے اس وقت کے چیف منسٹر گووند بلبھ پنت کے دور میں بابری مسجد میں رام کی مورتیاں رکھی گئیں۔
ملیانہ، ہاشم پورہ اور نیلی میں فسادات ہوئے۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی زندگی سے سیکھا ہے کہ داخل ہونے کے لئے دروازہ توڑنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا جب 2004 سے 2014 تک یو پی اے کی حکومت تھی تو بائیں بازو نے اپنی حمایت واپس لے لی تھی، کمیونسٹوں نے تحریک اعتماد میں اڈوانی کے ساتھ مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ اس وقت اسدالدین اویسی ہی تھے جنہوں نے منموہن سنگھ کو ووٹ دیا تھا۔
اویسی نے ان پر ’محبت کی دکان‘ کے دروازے بند کئے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ دروازے ہمیشہ کے لیے بند رہیں۔ لیکن میرے دروازے غریب اور انصاف پسند لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔ اویسی نے کہا بہار کے انتخابات کے دوران میں آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار تھا۔
میں نے پارلیمنٹ کی پرانی عمارت مین ان کے دو راجیہ سبھا ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کی۔ میں نے ان سے کہا، میری پارٹی کو 3 لاکھ ووٹ ملے ہیں اور مجھے سیمانچل علاقے میں 5 سیٹیں چاہیے۔ دونوں نے مسکرا کر مجھے چائے یا کافی پیش کی۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا آپ حیدرآباد سے کیوں آرہے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور حیدرآباد ہندوستان کا حصہ ہے۔
میں نے اپنی ریاستی پارٹی کے صدر اختر الایمان کو پٹنہ میں ان کے لیڈروں سے ملنے کے لیے بھیجا تھا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ اکھنڈ بھارت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اویسی نے کہا کہ وہ ’اکھنڈ بھارت‘ کی حمایت کرتے ہیں، لیکن وزیر اعظم مودی کو پہلے پاک مقبوضہ کشمیر کو دوبارہ حاصل کرنا چاہیے۔
اویسی نے کہا کہ میں اکھنڈ بھارت کے حق میں ہوں، اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کو پورا پاکستان، بنگلہ دیش نیپال، برما کے کچھ حصوں، افغانستان اور بھوٹان کا آدھا حصہ دوبارہ حاصل کرنا ہوگا، لیکن مودی کو پہلے پاک مقبوضہ کشمیر کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا اور مقبوضہ علاقوں سے چینیوں کو پسپا کرنا ہوگا۔
وشوا ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار کی جانب سے متھرا اور کاشی کی عبادتگاہوں کو ہندؤوں کے حوالے کرنے کی درخواست پر اویسی نے جواب دیا یہ سب بکواس ہے۔ مساجد‘ میرے والد یا والدہ کی جاگیر یا ملکیت نہیں ہیں۔ مساجد اللہ کی ہیں۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات موجود ہیں، اس وقت مغل بادشاہ تھے، اس سے پہلے ہندو حکمران پشیامتر شنگا نے کئی بدھ اسٹوپا گرائے اور مندر بنائے، اب وہاں کون کون انصاف دے گا۔
اب ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہمیں آئین کے مطابق کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ پنڈت مدن موہن مالویہ تھے جنہوں نے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس سوال پر کہ کیا آپ اسی لیے بابری مسجد زندہ باد کہہ رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں بابر کی اولاد؟ اویسی نے کہا میں چیلنج کرتا ہوں میرا اور مودی کا ڈی این اے ٹیسٹ کریں۔
پتہ چل جائے گا کون اصل آریہ ہے۔ انہوں نے کہا میں بابر کا ترجمان نہیں ہوں مگر میرا سوال ہے کہ کیا مودی اور بی جے پی ناتھورام گوڈسے کے ترجمان ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کس بنا پر بابر، اورنگ زیب اور جناح کا رشتہ دار کہا جاسکتا ہے۔ کیا میرا ان سے کوئی تعلق ہے۔