دانت ہے کہ مانتا نہیں…

[]

حمید عادل

ہاتھی کے دانتوں کے تعلق سے مشہورہے کہ اس کے دانت دکھانے کے اور چبانے کے اور ہوتے ہیں … لیکن انسان جو دانت دکھاتاہے، اسی سے اسے چبانا بھی پڑتا ہے …البتہ ہم یہی بات سیاست دانوں کے تعلق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ان کے دانت ہاتھی کے دانتوں کی طرح چبانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں…
پاس آؤ کہ ہم کھا تو نہیں جائیں گے تم کو
بس دانت دکھانے کے ہیں کھانے کے نہیں ہم
فرحت احساس
اردو ادب میں دانت کے بارے میں کئی دلچسپ محاورے پائے جاتے ہیں، جیسے دشمن کے دانت کھٹے کر دینا… اب اس محاورے کو یوں پڑھنا درست ہوگا کہ سیاست دانوں کے دانت کھٹے کردینا… جی ہاں ! ہمیںان سیاست دانوں کے دانت کھٹے کرنا ہے جو نفرت کا زہر پھیلا کر نعرہ مارتے ہیں ’’ کچھ میٹھا ہوجائے‘‘ان سیاست دانوں کے دانت کھٹے کرنا ضروری ہوگیا ہے جو انگریزوں کی طرح ’’ڈیوائیڈ اینڈ رول ‘‘کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ، ترقی کے نام پر ملک کو زوال کی سمت ڈھکیل رہے ہیں ، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بتا کر…
جب ہم نے سنا کہ سابق برطانوی وزیراعظم آنجہانی ونسٹن چرچل کی موت کے سالوں بعد ان کے نقلی دانت کی لاکھوں روپے میں نیلامی کی گئی تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی …سنا ہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے سونے کے سانچے میں لگے 6 نقلی دانتوں پر مشتمل سیٹ کی گزشتہ دنوں نیلامی کی گئی جو 18 ہزار برطانوی پاؤنڈ (تقریباً 18لاکھ 87ہزار ہندوستانی روپے) میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے۔ نیلامی کرنے والی آکشن کمپنی کا کہنا تھا کہ نیلامی سے قبل ان کی فروخت کا تخمینہ 8 ہزار پاونڈ لگایا گیا تھا مگر بولی شروع ہوتے ہی یہ دانت تعین کی گئی قیمت سے دُگنی قیمت میں ہاتھوں ہاتھ نیلام ہو گئے۔یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ سر ونسٹن چرچل کو بولنے میں لکنت کا سامنا ہوتا تھا جس کی وجہ سے بالائی چھ دانتوں کا یہ سیٹ اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ برطانوی وزیراعظم کو لکنت سے بچایا جا سکے اور انہوں نے ان ہی دانتوں کو لگا کردوسری عالمی جنگ کے دوران کئی مشہور تقاریر کی تھیں۔چرچل کے لیے یہ دانت اتنے اہم تھے کہ وہ ایسے دو سیٹ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ نیلام کیا گیا سیٹ جنگ کی ابتدا میں ان کے لیے بنایا گیا تھا۔1940 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران وزارت اعظمی کا منصب سنبھالنے والے ونسٹن چرچل کو ساری زندگی دانتوں کے مسائل کا سامنا رہا، انہوں نے اپنی بیماری کی وجہ سے زیادہ تر دانت کھو دیے تھے…
ونسٹل چرچل کے نقلی دانتوں کی لاکھوں روپیوں میں نیلامی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دانت ، دانت میں اور بھانت بھانت کے لوگوںمیں فرق ہوتا ہے …یوں تو دانت تو سب کے ایک سے ہوتے ہیں لیکن بات کی طرح دانت کس کے منہ سے نکلے ہیں ، وہ بات اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے …ورنہ چند سال قبل ہمارے دو عدد ( اصلی) دانتوں کو دانتوں کا ڈاکٹر بے مروتی سے کوڑے دان کی نذر نہ کرتا…بلکہ ان کی باقاعدہ نیلامی ہوتی اور اس نیلامی سے اتنی رقم ہمارے ہاتھ آجاتی کہ ہمیں اپنی شخصیت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا…
آج دانتوں کے دواخانے گلی گلی میںقائم ہیں بلکہ کسی گلی میں توغلے کی دکان نظر نہیں آتی لیکن دانتوں کا دواخانہ ضرور دکھائی دیتا ہے جبکہ ماضی میں ان کا وجود برائے نام تھا۔ہمارے ہاںعلاج کافی سستا ہے ،بہ نسبت دیگر ممالک کے…کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’ جتنا مہنگا علاج مسائلِ دنداں کا مغربی ممالک میں ہے اتنے میں ایک شریف آدمی آسانی سے بنکاک کا چکر لگا کر علاج اور ثواب دونوں بخوبی کرا اور کماسکتا ہے ہمارا مطلب ان تمام مطلوبہ اسبابِ گناہ کے میسرہوتے ہوئے بھی صبر شکر کرکے فائدہ نہ اٹھانا یقیناََ باعث ثواب ہی گردانا جائے گا۔‘‘
یہ لطیفہ یا شاید واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عورت ایک ڈینٹل سرجن کے کمرے میں داخل ہوئی اوربڑے ملائم لہجے میں کہنے لگی:’’مجھے بہت جلدی ہے ڈاکٹر صاحب، آپ کو ایک دانت ابھی نکالنا ہے، براہِ کرم اپنی فیس بتا دیں۔‘‘
ڈاکٹر نے فیس بتائی تو عورت نے کہا ‘‘یہ تو بہت زیادہ ہے !‘‘ ڈاکٹر نے کہا:’’اس میں میری فیس کے علاوہ جلد کو سن کرنے والی ادویات کی قیمت بھی شامل ہے۔‘‘
عورت نے کہا :’’آپ ادویات کو چھوڑیں اور یوںہی دانت نکال دیں!‘‘
ڈاکٹر نے حیرت سے کہا ‘‘آپ جیسی بہادر عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘
’’دانت میرا نہیں میرے شوہر کا نکالنا ہے اوروہ باہر بیٹھے ہیں۔‘‘ عورت نے سادگی سے جواب دیا۔
ایک صاحب دانت نکلوانے کے تصّور سے ہی لرز رہے تھے، ڈاکٹر نے انہیں ایک گلاس ملک شیک پلایا اور کہا: ’’اس سے آپ میں کافی ہمت پیدا ہو جائے گی!‘‘
جب وہ صاحب ملک شیک پی چکے توڈاکٹر نے دریافت کیا:
’’اب آپ خود کو کیسا محسوس کر رہے ہیں؟‘‘
ان صاحب نے جواب دیا: ’’تو میرے دانت کو ہاتھ لگا کر تو دیکھ،تیری بتیسی حلق میں ٹھونس دوں گا! ‘‘
دانت توڑنا انگریزوں کے دور سے سخت ترین قابل تعزیر جرائم میں سے ایک تھا،آج بھی تعزیرات ہند325کے تحت جرم ثابت ہونے پرسات سال کی جیل اور جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے اور کوئی جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کی جیل کی سزا میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔
ایک وقت تھا جب جھگڑے کے ابتدائی کلمات میں یہ جملہ ضرور شامل ہوتا ’’منہ پے ایسا گھونسہ ماروں گا، بتیسی حلق میں اتر جانا ۔‘‘یہ محض جملہ ثابت ہوتا، نہ وہ گھونسہ ایسا ہوتا کہ بتیسی حلق میں اتر جائے اور نہ ہی کوئی وثوق سے کسی کے منہ میں بتیسی کی موجودگی کی گیارنٹی دے سکتا تھا ،لیکن مذکورہ روایتی دھمکی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے …شاید اس کی وجہ جگہ جگہ دانتوں کے ڈاکٹروں کی موجودگی ہے …
بتیسی سے متعلق ایک لطیفہ حاضر ہے جو کافی گھسا پٹا ضرور ہے لیکن موقع محل کے عین مطابق ہے۔ ’’ایک شخص دوسرے شخص کو دھمکی دیتے ہوئے’’ اگر تم نے میرا کام نہ کیا تو میں تمہارے چونسٹھ کے چونسٹھ دانت توڑ دوں گا…‘‘ برابر میں کھڑا دوست مداخلت کرتے ہوئے :’’ بھائی دانت تو بتیس ہوتے ہیں۔‘‘ پہلا شخص اُسے گھور کر دیکھتے ہوئے کہتا ہے : مجھے پتا تھا کہ تو درمیان میں بولے گا، اس لیے میں نے تیرے بھی ساتھ میں گن لیے تھے‘‘۔
شہر میں دانتوں کے ایسے کلینک بھی ہیں کہ نام توکسی سند یافتہ ڈاکٹر کا ہوتا ہے لیکن کلینک میں کوئی نا تجربہ کار لٹیرا سفید گاؤن پہن کر بیٹھ جاتا ہے،جس کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ متاثرہ دانت کی بجائے صحت مند دانت اکھاڑنے میںمہارت رکھتا ہے۔ ایسے ہی ایک کلینک میں دانت کو کیڑ لگنے کی شکایت لے کر جب ہم پہنچے تو ہمارے متاثرہ ڈاڑھ میں فلنگ کے عنوان سے خود ساختہ ڈاکٹر نے مشین سے اتنی کھدائی کی کہ وہ ڈاڑھ کی جڑ تک جا پہنچا … اورہماری غیر معمولی بہادری ملاحظہ فرمائیں کہ ہم نے درد سے تڑپ کر ’’ آہ،اوہ ، اوچ‘‘ تک نہ کی کہ ایسا بزدل کیا کرتے ہیں،عادل نہیں…
ڈاکٹر سے گفتگو کے دوران ہمیں پتا چلا کہ وہ نام نہاد دانتوں کاڈاکٹر بننے سے قبل بورویل کھدوائی کے عملے میں شامل تھا…جیسا کہ آپ جانتے ہیںبورویل کھدوائی کے عملے کا کام عموماًاس وقت تک کھدوائی جاری رکھنا ہوتا ہے جب تک کہ پانی برآمد نہ ہوجائے ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اسے ہماری حالت پر رحم آگیا ، ورنہ پتا نہیں وہ پانی کی تلاش میں کھدائی کرتے کرتے ہمارے جسم کے کس حصے تک جاپہنچتا؟ …قصہ مختصر یہ کہ مذکورہ ڈاکٹر کی لاپرواہی اور بے حسی کی بدولت ہماری بتیسی پہلے اکتیسی میں تبدیل ہوئی اور اب اکتیسی، تیسی میں تبدیل ہو چکی ہے… جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے ،دوسری جانب ہم یہ سوچ سوچ کر پھولے نہیں سماتے ہیں کہ اب کوئی مائی کا لال ہمیں یہ کہہ کر ہرگز نہیں دھمکا سکتا کہ ’’تیری بتیسی حلق میں اتار دوں گا ۔‘‘
نام نہاد ڈاکٹر نے ہمارے اچھے بھلے دانتوں کے ساتھ بھی کچھ ایسی چھیڑ چھاڑ کی کہ وہاں سے وقتاً فوقتاً درد کی لہریں اٹھا کرتی ہیں…
جب ہم رات کو سوئے تو دانتوں میں کوئی درد نہ تھا، لیکن صبح جاگے تو دانتوں میں درد بھی جاگ اٹھا …ڈاکٹر سے رجوع ہوئے،دوائی کھائی ، درد کم ہوا ، ابھی اطمینان کا سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ شدت کا درد دوسری جانب سے اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دماغ کی رگوں کو تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا…ہم ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ وہ دانت جس کادرد کم ہوگیا تھا،اچانک اس کے درد میں اچھال آیا اور دونوں ہی جانب کے جبڑے اس قدر سوج گئے کہ ہم اپنی ہی نظروں میں مشکوک حیدرآبادی بن گئے …آئینہ دیکھتے تو غیب سے آواز آتی ’’ وہ میں نہیں !‘‘دونوں جانب کے لٹکتے گالوں کو دیکھ کر محسوس ہونے لگا جیسے ہمارے دھڑ پرسومو پہلوان کا سر رکھ دیا گیا ہے … کوئی چیز چبانا تو چھوڑئیے محض چبانے کی نیت بھی کرتے تو دانتوں کو پسینہ آجاتا،دراصل ان میںایسی نزاکت آگئی تھی کہ ہم سنگترے کی قاشیں بھی منہ میں ڈال کر گھولیں تو محسوس ہوتا گویا لوہے کے چنے چبا رہے ہوں …
ہم دوڑے دوڑے دانتوں کے ڈاکٹر سے رجوع ہوئے ،بعد معائنہ ڈاکٹر نے عجیب و غریب انکشاف کرڈالا، اس نے کہا : ہمارے کچھ دانت گھس چکے ہیں تو کچھ دانتوں کے مسوڑھے دھنس چکے ہیں ،جس کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی ہے ۔ڈاکٹر نے مزید کہا کہ یہ کسی انفکشن کا کمال بھی ہوسکتا ہے …اس نے تین دن کی دوائی لکھ ڈالی۔دوائی کے ساتھ ہم دعا بھی کرتے رہے ، اور ٹوٹکے بھی استعمال کرتے رہے ،لیکن درد کی بدولت منہ ہنوز پھلا ہوا تھا… پھول بانو کو ہماری اس کیفیت سے محظوظ ہونے کا اچھاموقع مل گیا، چنانچہ وہ وقتاً فوقتاً ہم پر یہ فقرہ کستیں:
’’میں نے ایساکیا کہہ دیا جو آپ منہ پھلاکر بیٹھے ہیں…‘‘
اور ہم اس موقف میں بھی نہیں تھے کہ ان کے اس دلچسپ ریمارک پر دانت ہی نکال سکیں….
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *