[]
جئے پور: ہندوتوا گروپ ”سروہندوسماج“ کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب، لوجہاد اور اسلامی جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کئے جانے کے بعد تین مسلم اساتذہ فیروز خان، مرزا مجاہد اور شبانہ کو کوٹہ راجستھان کے ایک اسکول سے معطل کردیا گیا جس پر اسکول کے ہندو طلبا نے تینوں مسلم اساتذہ کی معطلی کے خلاف احتجاج کیا۔
اُنہوں نے اپنے گاؤں کے اسکول سے سنگوڑ ٹاؤن میں واقع ایس ڈی ایم کے دفتر تک کئی کیلو میٹر پیدل سفر کیا اور تینوں مسلم اساتذہ کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان اساتذہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ طلباء پر مذہب تبدیل کرنے اور لوجہاد کرنے کیلئے زبردستی کررہے ہیں اور اُنہیں نماز پڑھنے پر مجبور کررہے ہیں۔
طلباء نے اساتذہ کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کرنے والے دیہاتیوں اوردیگر طلباء کیخلاف کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ طلباء کو تینوں مسلم اساتذہ کی معطلی کے خلاف سنگوڑ اسکول میں احتجاج کے دوران روتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
اُنہوں نے بتایاکہ بعض طلباء کو ان مسلم اساتذہ کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کرنے کیلئے مجبور کیا گیا تھا۔ ’مکتوب میڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق 15 کے منجملہ 12 ہندو اساتذہ نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو ایک خط روانہ کیا ہے اور ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
ہر ٹیچر نے علیحدہ خط لکھا ہے اور کہا ہے کہ معطل اساتذہ نے جبری تبدیلی مذہب، لو جہاد یا نماز پڑھنے پرمجبور کرنے جیسی کوئی حرکت کبھی نہیں کی۔ اسکول پرنسپل کملیش سنگھ بیروا نے ’مکتوب‘ کو بتایاکہ تمام اساتذہ بیحد موثرکارکردگی رکھتے ہیں۔
مجاہد مرزا پی ٹی ٹیچر ہیں، فیروز خان لیول ون پرائمری ٹیچر ہیں اور شبانہ میڈیم نے اکتوبر میں ہی اسکول جوائن کیا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ نیوز چیانلس نے اساتذہ کی معطلی کے بارے میں اس طرح کی اطلاعات دی ہیں لیکن آپ طلباء کے احتجاج کے بارے میں بمشکل ہی کوئی رپورٹ دیکھ پائیں گے۔
آپ کو اُس اسکولی طالبعلم کا بیان بھی نہیں دکھایاجائے گا جس نے یہ کہا ہے کہ اُسے یہ سب کچھ کہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور اُن پر جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے اُنہیں نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم چند سیکولر ہندو ہنوز انصاف کا ساتھ دے رہے ہیں۔