[]
حمید عادل
عنوان پڑھتے ہی آپ کو یقینا عمران ہاشمی کی سوپر فلاپ خوفناک فلم ’’ ایک تھی ڈائن ‘‘ یاد آگئی ہوگی لیکن ہم یہاں جس موپیڈ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ ڈائن تو نہیں تھی لیکن ہاں!کسی ڈائن سے کم بھی نہیں تھی۔ہر وقت چیختی چلاتی ساری بستی میں کسی آسیب کی طرح گھوم کر لوگوں کو دہشت زدہ کرتی رہتی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موپیڈس کا شہر میں راج تھا۔ یاد رہے کہ اس کی پچھلی نشست پر خواتین کچھ اس ادب و احترام کے ساتھ بیٹھا کرتیں کہ کسی کی کیا مجال جو ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی دیکھے، لیکن آج کا دورموٹر سائیکل یا بائیک کا دور ہے ، جس پر فیشن پرست خواتین اور لڑکیاں کچھ اس ادا سے بیٹھنے لگی ہیں کہ جیسے ان کے جسم کے نشیب و فراز دیکھ کرلوگ اپنی زندگی کے نشیب و فراز بھول جائیں گے۔ شرٹ ، شارٹ ہوتا ہے( اس شارٹ کو دیکھ کرپتا نہیں کتنے شارٹ سرکٹ ہوجاتے ہیں) جس کی بدولت دولت ِحسن نمایاں ہوجاتی ہے جسے عقلا چھپا کر رکھتے ہیں۔جدید فیشن کی دلدادہ لڑکیاں بڑی ڈھٹائی سے ماحول کو آلودہ کرنے کی غرض سے بے حیائی کی ’’ٹانگ‘‘ بلکہ ’’ٹانگیں‘‘ اڑا رہی ہیں یا پھریوں کہیے کہ حیا کوانہوں نے بے حیائی کی دیوار پر ’’ ٹانگ‘‘ دیا ہے ۔ شاید وہ یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ بھوکے پیٹ اور بھوکی نگاہیں ’’لیگ پیس‘‘ کی شوقین ہوتی ہیں ۔بائیک تیار کرنے والوں کی شرارت بھی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے پچھلی نشست کو کچھ اس ڈھنگ سے بنوایا ہے کہ دوریاں خود بخود نزدیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اوراس پر تشریف رکھنے والا اپنی شرافت کو بالائے طاق رکھ کر اور اگر کوئی مجبوری ہو تو بادل نخواستہ یہ مصرع پڑھتا دکھائی دیتا ہے کہ:
قربت کے سائے میں ہے محبت چھپی ہوئی
تو کتنا دل کے پاس ہے یہ دور جاکے دیکھ
اور مستی میں چورموٹر سائیکل راں پچھلی نشست پر براجمان ہستی کے لیے یہ مکھڑا گنگناتا محسوس ہوتا ہے ’’ دوری نہ رہے باقی، آج اتنے قریب آؤ، میں تم میں سما جاؤں ، تم مجھ میں سماجاؤ‘‘جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، جب جب ہم موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر براجمان ہوتے ہیں ، بڑی ندامت محسوس کرتے ہیں ۔دراصل ہمیں لگتا ہے جیسے ہم کسی کی معشوقہ ہیں اور کوئی ہمیں بھگا کر لے جارہا ہے ۔
ہم یہاں جس موپیڈ کا ذکر کررہے ہیں وہ چمن بیگ کے بڑے بھائی گارڈن بیگ کی تھی، جس کی دہشت سے سارا شہرلرزاں تھا۔ جس کسی نے اس موپیڈ کی ایک دفعہ سواری کرلی وہ اسے زندگی بھر فراموش نہیں کرپایا اور جس نے گارڈن بیگ سے لفٹ مانگی پھر وہ پانی مانگنے کے قابل تک نہ رہا، کیونکہ پچھلی نشست خالص لوہے کی تھی اور شاک ابزرور نام کی شئے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ ہر جھٹکا ریڑھ کی ہڈی میں ایسی سنسنی پیدا کرتا کہ پیچھے بیٹھا شخص موت کو اپنے بالکل قریب پاتا ۔حالات کے مارے ہوئے شخص کو اس موپیڈ پر بیٹھنے کے بعد ہی اندازہ ہوتاکہ وہ اس پر براجمان ہوکرکس قدر ذلیل و رسوا ہورہا ہے ۔چنانچہ کوئی بھی عزت دار اور خوددار آدمی دوبارہ اس پر بیٹھنا تو کجا اس کی جانب دیکھنا تک گوارا نہ کرتا۔
گارڈن بیگ اپنی موپیڈ کی طرح خود بھی بڑے دلچسپ تھے، قد کے اعتبار سے موصوف جوتوںسمیت ساڑھے تین فٹ کے تھے ، رنگ بادامی اور آنکھیں شرابی تھیں ۔ سر پر بال کے نام پر ہلکی سی سفید چادر بچھی ہوئی تھی جسے وہ تیل لگا کر بڑی مہارت اور دور اندیشی سے دائیں سے بائیں جانب جمایا کرتے لیکن مونچھیں غضب کی تھیں، اتنی غضب کی کہ کوئی بھی چڑیا ان میں انڈے دینے اور پھر سلیقے سے سینے کا کام کر سکتی تھی ۔ نحیف و نزار اتنے تھے کہ ایک دن کسی اسکول کے قریب بیٹھے اونگھ رہے تھے کہ اسکول والوں نے انہیں ڈھانچہ سمجھ کر اٹھا لیا اور دیوار سے ٹانگ دیا !
گارڈن بیگ کی موپیڈجہاں کہیں کھڑی ہوتی ہر کوئی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی موپیڈ کو گھورتا رہتا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتا کہ آخر یہ بلا کیا ہے؟ اور جب چل پڑتی تو سڑکیں ویران ہوجاتیں، بچے ماؤں سے لپٹ جاتے اور جو بچے نہیں ہوتے وہ بھی کسی نہ کسی سے لپٹنے کی کوشش ضرورکرتے۔دراصل آواز ایسی دھماکے دار ہوتی کہ راہ چلتے بہرے حضرات تک بدک جاتے ۔ موپیڈ سے آرہی دلخراش آوازوں کی بدولت پہلی بار پچھلی نشست پر بیٹھنے والے شخص کی گگھی بندھ جاتی۔ وہ بیچارہ توموپیڈسے کود کر راہ فرار اختیارکے بھی موقف میں بھی نہ ہوتا کیونکہ خوف کی بدولت اس کے ہاتھ پیرپھول جایا کرتے اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا۔
گارڈن بیگ کی موپیڈ کے بیشترپرزے کسی ڈوری یاپھر لکڑی کے ٹکڑے کی مدد سے بڑی نزاکت کے ساتھ فٹ کیے گئے تھے۔ لہٰذا دوران سفر اس کے پرزے یہاں وہاں گرا کرتے اور گارڈن بیگ ان پرزوں کو اٹھا اٹھا کر فٹ کرتے جاتے۔ گاڑی کے بریک انتہائی کمزور تھے،، چنانچہ اگر انہیں کسی مقام پر رکنا ہو تااور موپیڈرفتارپکڑی ہوئی ہوتی ہو تو وہ نصف کلو میٹر قبل سے ہی نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگاتے بلکہ باقاعدہ کسی بچے کی طرح سڑک پرایڑیاں رگڑنا شروع کر دیتے ، جس کی بدولت کبھی کبھار چنگاریاں تک نمودار ہونے لگتیں۔ کوئی بندہ اچانک موپیڈ کے روبرو آجاتا تو گاڈرن بیگ اپنی گاڑی کے بریک کو قصور وار سمجھنے کی بجائے اسی کو کوسنا شروع کردیتے ۔ کئی بار خود گارڈن بیگ بروقت بریک نہ لگنے کی بدولت کسی گاڑی کے نیچے آتے آتے رہ گئے تو کبھی کسی مین ہول کی نذر ہوتے ہوتے رہ گئے ۔جب کبھی ان کی موپیڈ شرارت پر اتر آتی تو کچھ ایسا کثیف دھواں چھوڑتی کہ اس کے پیچھے آنے والے کسی بھی شریف النفس کا منہ کالا ہو جاتا، خواہ وہ کتنا ہی سرخرو کیوں نہ ہو۔ غالباًان کی موپیڈ کی جانب سے وقتاً فوقتاً چھوڑے جانے والے دھویں کاہی کرشمہ تھا کہ بستی مچھروں سے بالکلیہ طور پرپاک تھی۔ اس موپیڈ کی شرارتوں کی بدولت انہیں کئی دفعہ نہ صرف لوگوں کی گالیاں سننے کو ملیں بلکہ سربازار انہیں ذلیل و خوار بھی ہونا پڑا لیکن پتا نہیں انہیںاپنی سواری سے کیسی والہانہ محبت تھی کہ وہ اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے کہ اچھی ہو بری ہو اولاد، اولاد ہوتی ہے۔ جبکہ آج کے بیشترنوجوان ذرا سی بات پر بیوی کے کہنے پرماں باپ کوتک چھوڑ کر جاتے ہیں….
کلیم کلبلا ( ریسرچ اسکالر) نے گارڈن بیگ کی موپیڈ کے تعلق سے معلومات اکٹھی کرنے کی جان توڑ کوششیں کی لیکن پھر بھی اس کی نسل اور تاریخ پیدائش کا پتا نہ چلا سکے۔اب آپ کے لیے محض اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ اس کا اگلا حصہ کسی کمپنی کا تھا تو پچھلا حصہ کسی اور کمپنی کا۔اسے ٹھیک اسی طرح بنایا گیا تھا جس طرح فلم ’’ کرش3‘‘ میں کال ( وویویک اوبرائے) کو سدھانت آریا( نصیر الدین شاہ) اور روہت مشرا( ریتک روشن) کے ڈی این اے سے تیار کیا گیا ۔ فلم کرش3 کا ایک مکالمہ ہمیں بے انتہا پسند آیاکہ’’ جو شخص کسی انسان کے چہرے پر مسکراہٹ لائے وہی ’’کرش‘‘ ہے۔‘‘اس فلم کو دیکھ کرہی ہم نے جانا کہ ہم بھی ’’ کرش‘‘ سے کم کچھ نہیں، کیا ہوا اگر ہم ہوا میں اڑ نہیں سکتے لیکن بے پرکی تو اڑا سکتے ہیں ، لوگوں کی زندگیاں نہیں بچا سکتے لیکن مسکرانے پر مجبور کر کے بے جان زندگیوں میںجان توڈال سکتے ہیں۔
خیر! ہم یہاں اپنی نہیں گارڈن بیگ کی موپیڈ کی تعریف کررہے ہیں، جوجا تو ناک کی سیدھ میں ہوتی لیکن محسوس ہوتا جیسے ابھی دائیں جانب مڑ جائے گی ، دراصل اس کا پچھلا حصہ خاصہ بینڈ تھا۔ موپیڈ کی اس متوالی چال کو دیکھ کر اکثر منچلے نوجوان بے ساختہ گنگنا اٹھتے ’’ توبہ ! یہ متوالی چال، جھک جائے گی پھولوں کی ڈال، چاند اور سورج آکر مانگے تجھ سے رنگ جمال … حسینہ تیری مثال کہاں؟‘‘پہیے ہر وقت ایسے تھر تھراتے رہتے کہ گویا ابھی موپیڈ سے جدا ہوجائیں گے ۔ان کے پہیوں کی یہ حالت دیکھ کر ہی اکثر نوجوان گارڈن بیگ کو چھیڑا کرتے کہ ’’ چچا! پہیے الٹے گھوم رہے ہیں !‘‘ اور بیچارے گارڈن بیگ گاڑی سے اتر کرغور سے دیکھتے کہ کہیں واقعی پہیے الٹے نہ گھوم رہے ہوں!
گارڈن بیگ کی موپیڈ کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ کک مارنے سے ہرگز اسٹارٹ نہیں ہوتی بلکہ اسے لے کرکچھ دور تک دوڑنا پڑتا۔ اگر اس کا موڈ اچھا ہوا توگلی میں چھ آٹھ چکر لگانے کے بعد پٹاخے دار آوازوں کے ساتھ بھاری مقدار میں دھواں خارج کرتے ہوئے اسٹارٹ ہوجاتی اور اگر موڈ خراب ہوتو پھر چاہے اس کو لے کرکتنی ہی بار دوڑ لگالیںاسٹارٹ ہونے کا نام نہ لیتی ۔ وہ لمحات نہایت پرلطف ہوتے جب چمن بیگ اپنی موپیڈ کو اسٹار ٹ کرنے کی غرض سے اسے لے کر دیوانہ وار اِدھر سے اُدھراور اُدھر سے اِدھر دوڑتے پھرتے اور پسینے میں شرابور ہوجاتے۔ کئی بار تو ایسابھی ہواکہ گارڈن بیگ اپنی گاڑی کو اسٹارٹ کرنے کے جنون میں دوڑتے دوڑتے دفتر پہنچ گئے !
گارڈن بیگ کی موپیڈ پٹرول کو کچھ اس طرح پی جاتی جیسے نیتا غریب عوام کا خون پیتے ہیں ۔ ہمیں تو گمان ہوتا کہ کہیں اس میں کسی کرپٹ نیتا کی آتمانہ سماگئی ہو جو پٹرول کی شکل میں گارڈن بیگ کا مسلسل خون چوس رہی ہے۔ اس کی رفتار کے تعلق سے آپ کا محض اتنا جان لینا کافی ہے کہ جب کبھی رات کے وقت گارڈن بیگ کسی سنسان راہ سے گزررہے ہوتے اور خونخوار، بد چلن یا آوارہ کتے ان کے پیچھے ہاتھ دھوئے بغیرپڑ جاتے تو وہ اپنی موٹر سائیکل کی رفتار بڑھانے کے بجائے غیر معمولی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری موپیڈ سے اترکر معہ موپیڈ دوڑنا شروع کر دیتے اور اگر خدا نخواستہ حالات ان کے حق میں زیادہ ہی ناسازگار ہوجاتے تو پھر وہ موپیڈ چھوڑ کر راہ فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھتے…
گارڈن بیگ کی مو پیڈ بڑی اڑیل قسم کی چیز تھی، چلتے چلتے اچانک کہیں بھی رک جاتی تو پھر آگے بڑھنے کا نام نہ لیتی۔ اگر راستہ تنگ ہو تو ٹریفک جام ہوجاتی اورلوگ نہ صرف مختلف تلخ فقرے کسنے لگتے بلکہ گارڈن بیگ کی دھلائی پر تک آمادہ ہوجاتے ۔ یہ وہ وقت ہوتا جب پیچھے بیٹھا ہوا شخص ’’تلوار چمکی یار فرار‘‘ کے مصداق تلوار چمکے بغیر ہی گارڈن بیگ کو تنہا چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر جاتا۔ جہاں موپیڈ اس طرح اچانک دم توڑ دیتی وہیں نجانے اسے کیا ہوجاتا کہ کسی بے لگام گھوڑے کی طرح سڑک پر بے تحاشہ دوڑنے لگتی، جسے قابو میں کرنا گارڈن بیگ کے بس کی بات نہ ہوتی۔ لہٰذا سنتے ہیں کہ وہ ایک بار نارائن گوڑہ کے بجائے نارائن کھیڑ پہنچ گئے تھے ۔
خدا کا شکرہے کہ ہم نے کبھی اس کی سواری نہیں کی ، البتہ ایک دن ہم بس اسٹاپ پر کھڑے بے بسی سے بس کا انتظار کررہے تھے کہ گارڈن بیگ اپنی موپیڈ کا اگلا پہیہ ہماری ٹانگوں کے درمیان گھساتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگے ’’ برخودار کہو تو میں تمہیں کہیں پہنچا دوں!‘‘ ہم نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’ نہیں نہیں ! ابھی ہمارا خودکشی کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن جس دن بھی دنیا سے ہمارا دل بھر جائے گا ہم آپ کی موپیڈ پر ضرور سوار ہوں گے۔‘‘اور پھر ہم نے حقارت سے موپیڈ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ’’ویسے اگر ہمارا بس چلے تو ہم ابھی اس کا گلا گھونٹ دیں ۔‘‘ ہمارے اس تلخ ریمارک پر گارڈن بیگ نے ایک ادا سے مسکرا کر کہا تھا ’’ مرگئے اس کو مارنے والے !‘‘
خدا جھوٹ نہ بلوائے ، جس دن یہ موپیڈ چوری ہوگئی ،اُس دن سارے محلے بلکہ شہر نے چین کا سانس لیا، ایسے جیسے کسی خوفناک آسیب کا خاتمہ ہوگیا ہو،جبکہ گارڈن بیگ آج بھی ہمیں کچھ ایسی نگاہوں سے گھورتے ہیں جیسے اس کے غائب ہونے میں ہمارا ہاتھ ہو….!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰