[]
نئی دہلی: منی پور میں گزشتہ 4 مئی کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران دو خواتین کو برہنہ حالت میں پریڈ کرانے کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ اس (واقعہ) کو اس دلیل سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا کہ دیگر جگہوں (ریاستوں) میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہيں۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس ارون مشرا پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے منی پور میں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے میں 18 مئی کو’زیرو ایف آئی آر’ درج کرنے پر بھی سوال اٹھایا۔
جسٹس چندر چوڑ نے بنچ کی صدارت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کئی سوالات پوچھے۔ بنچ نے پوچھا کہ واقعہ کے بعد 14 دنوں تک وہاں کی پولیس کیا کر رہی تھی۔ ایف آئی آر فوری درج کیوں نہیں کی گئی؟ پولیس کو کیا مسئلہ تھا؟
عدالت عظمی منگل کے روز دوپہر 2 بجے کے بعد اس معاملے کی مزید سماعت کرے گی۔
جسٹس چندرچوڑ نے منی پور کے ساتھ ہی مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ کی خواتین کے جنسی ہراسانی کیس کی سماعت کے لیے وکیل بنسوری سوراج کی درخواست پر بنچ کے موقف کو واضح کیا۔ وکیل نے مداخلت کی عرضی دائر کی تھی جس میں منی پور کے ساتھ دونوں ریاستوں سے متعلق معاملوں کی سماعت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جسٹس چندر چوڑ نے وکیل کی عرضی پر جواب دیا، “اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کے خلاف جرائم مغربی بنگال (اور چھتیس گڑھ) میں بھی ہو رہے ہیں، لیکن یہاں (منی پور) معاملہ مختلف ہے۔” یہاں ہم فرقہ وارانہ تشدد اور اس میں خواتین کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کا معاملہ سن رہے ہیں۔ منی پور میں جو کچھ ہوا اسے ہم یہ کہہ کر جواز فراہم نہیں کر سکتے ہيں کہ ایسا ہی کچھ کہیں اور ہوا۔
ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر سے متعلق بنچ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات پر مسٹر مہتا نے ریاستی حکومت کا موقف پیش کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے منی پور کے قابل اعتراض ویڈیو وائرل ہونے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا اور ان سے جواب طلب کیا تھا۔
27 جولائی کو مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ خواتین پر تشدد اور جنسی ہراسانی سے متعلق معاملے کی تحقیقات مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کو سونپ دی گئی ہے۔