[]
الکٹورل بانڈس سے متعلق سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ۔بی جے پی کے کفن میں آخری کیل
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
ملک کے چاروں سمت اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا ہے لیکن اچانک سپریم کورٹ کے ایک تاریخ ساز فیصلے نے ملک کی جمہوریت کو ایسا منور کردیا ہے کہ اب دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ الکٹورل بانڈس سے متعلق ایک مقدمہ کا نتیجہ سننے کے لئے 142 کروڑ ہندوستانی بے چین تھے جو اس مہینہ کی 15 تاریخ کو منظر عام پر آگیا۔ سپریم کورٹ نے اس عظیم الشان فیصلے میں یہ کہا کہ الکٹورل بانڈس غیر دستوری ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بی جے پی کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو حکم دیا ہے کہ وہ الکٹورل بانڈس کی خرید و فروخت سے متعلق ساری تفصیلات اگلے مہینہ کی 13 تاریخ تک الیکشن کمیشن آف انڈیا کے حوالے کردے تاکہ ECI تجزیاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرسکے۔ لگ بھگ 10 سال کے دوران نریندر مودی اور بی جے پی کی سرکار کو اتنا بڑا جھٹکا پہلی بار لگا ہے۔ مودی نے الکٹورل با نڈ اسکیم کو Transparent قرار دیا تھا جبکہ اس کے الٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس میں کہیں بھی Transparency نہیں ہے۔ کس نے کس کو چندہ دیا ہے یہ چھپانے والی بات نہیں ہے اس کی واضح تصویر دیکھنے کا عوام کو پورا پورا حق حاصل ہے۔ روزنامہ ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 16,500 کروڑ روپئے سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ گھرانوں نے ارسال کئے ہیں جس میں سے سب سے بڑا یعنی 80 فیصد حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خزانے میں گیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ پیسہ اڈانی کا ہے یا امبانی کا ہے؟ اتنا بڑا عطیہ بی جے پی کو جاتا ہے تو وہ یونہی نہیں جاتا بلکہ حکومت سے بڑے بڑے ٹھیکے یا بڑے Favours لینے کے لئے دیا جاتا ہے۔ موٹے موٹے لفظوں میں اسے قانونی رشوت ہی کہا جائے گا۔ 13؍مارچ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا ان تفصیلات کو اپنے ویب سائٹ پر ڈالتا ہے تو معلوم ہوجائے گا کہ کس گھرانے کے کتنے پیسے بی جے پی کو گئے اور کتنی رقم دیگر پارٹیوں کو ملی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ پارٹیوں کو ایک نیا پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔ اترپردیش کی ایک بڑی پارٹی یعنی سماج وادی پارٹی کو صرف تین کروڑ روپئے ارسال ہوئے جبکہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو ایک نیا پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔ یہ رقمی لین دین ہندوستان کی جمہوریت کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی قیادت چیف جسٹس چندر چوڑ نے کی اپنے اس تاریخی فیصلے سے ثابت کردیا ’’ ٹائیگر ابھی زندہ ہے‘‘ ۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس فیصلے کے انتہائی شاندار نتائج عوام کے سامنے آئیں گے اور خاص طورپر مودی اور ان کے حواریوں کی قلعی کھل جائے گی۔ اس سے Right to Information کے معاملوں کو بھی غیر معمولی تقویت حاصل ہوگی۔ ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ پر بھی کچھ حد تک لگام لگے گی ۔ لوگوں کو یونہی پریشان نہیں کیا جاسکے گا۔ مودی اور کارپوریٹ گھرانے اس قدر گہرے دوست ہیں کہ ان کے تمام اہم چہرے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔ ماہرین یہ دریافت کررہے ہیں کہ بیرونی ملکوں سے بی جے پی کو کتنے چندے ملے ہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو بی جے پی نے ان کمپنیوں کو کیا Favour کیا ہے۔ یہ سارے امور یقینا 13؍مارچ تک منکشف ہوجائیں گے۔ بی جے پی اور کارپوریٹ گھرانے کے درمیان جو ناپاک تعلقات رہے ہیں ان کے سامنے آجانے کے بعد ملک کی سیاست پر زبردست اثر پڑے گا اور جمہوریت یقینا ایک نئی کروٹ بدلے گی۔ عوام کو اس فیصلے کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا تاکہ ان کی آنکھوں پر لگی معصومیت کی عینک ہٹ سکے اور وہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ایک فیصلہ کن موقف اختیار کرسکیں۔ کچھ کمزور فیصلوں کی وجہ سے یہ احساس ہورہا تھا کہ سپریم کورٹ سرکار کی طرف جھکائی دے رہا ہے لیکن پندرہ فروری کے فیصلے سے سپریم کورٹ کی جئے جئے کار ہورہی ہے اور لوگ چیف جسٹس سے اظہار تشکر کررہے ہیں۔ اس فیصلے نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو تقویت پہنچائی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جہاں بی جے پی اور مودی سرکار رسوا ہوگی وہیں پر اڈانی اور امبانی جیسے دھنا سیٹھوں کی بھی ساکھ متاثر ہوگی۔ سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کہ لوک سبھا کے چناؤ کا اعلان ہونے ہی والا ہے۔ بھارت نیائے یاترا میں مصروف کانگریس کے حرکیاتی قائد راہول گا ندھی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ وہیں پر دوسرے کیمپوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس مقدمہ کی اصل فریق اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم نے اس فیصلے کو جمہوریت کو مضبوط کرنے کی سمت بڑا قدم قرار دیا۔ بحیثیت مجموعی اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہوئے اسکیم کو ناجائز رقم کو جائز کرنے کی مودی سرکار کی اسکیم قرار دیا۔الکٹورل بانڈس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا یہ اسکیم آزادی تقریر کے دستوری حق اور اطلاعات کے حق پر کاری ضرب لگاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ الکٹورل بانڈس کی اسکیم 2؍جنوری2018 کو یہ کہہ کر متعارف کروائی گئی تھی کہ اس سے عطیات کی شفافیت کی ضمانت ہوگی جبکہ یہ اس کے الٹ ثابت ہوئی۔ اسکیم کے آغاز کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے ابھی تک 16518 کروڑ کے بانڈس جاری کئے ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے سوئے ہوئے لوگوں کو جاگنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ بقول امیر مینائی کہ
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰