[]
حمیحد عادل
ہچکی بے اختیار آتی ہے اور ہم کو چونکا جاتی ہے ،یوں تو یہ منہ سے نکلتی ہے لیکن ناک میں دم کرتی ہے … ہچکی کی تکلیف وہی جانتا ہے جو ہچکیاں لیتا ہے …ہچکی کو ہرگز معمولی نہ جانیے، ہچکی کے موضوع پر فلم تک بن چکی ہے جو ہٹ رہی …
جب جب ہچکی آتی ہے، آدمی کو ہلا کربلکہ دہلا کررکھ دیتی ہے۔
ایک بہت موٹا آدمی گاڑی میں جارہا تھا، اس کی گاڑی مسلسل ہچکولے کھا رہی تھی۔ ٹریفک کانسٹیبل نے گاڑی کو روکا اور پوچھا: ’’آپ کی گاڑی میں کیا خرابی ہے جو مسلسل ہچکولے کھارہی ہے ؟‘‘
موٹا آدمی اس سے قبل کہ کچھ کہتا، اسے ہچکی آئی اور گاڑی لرز گئی …اس سے قبل کہ وہ شخص کچھ کہتا کانسٹبل نے کہا:جاؤ جاؤ !کچھ مت کہو!‘‘
طبی نقطہ نظر سے ہچکیاں آنے کی کئی وجوہات ہیں، ان وجوہات میں ضرورت سے زیادہ کھانا یا تیزی کے ساتھ کھانا ، گیس یا الکوحل والے مشروبات کا استعمال، ذہنی دباؤ ہی نہیں خوشی کا احساس بھی ہچکیوں کا سبب بن جاتا ہے ، جسم میں پانی کی کمی یا نظام ہاضمہ کی خرابی بھی ہچکی کا موجب بنتی ہے۔
ہچکی سے ہمارا پرانا یارانہ ہے …پچھلے دنوں ہم پھر ایک بار ہچکی کا شکار ہوگئے…ہچکی پیٹ سے ایک جھٹکے کے ساتھ ابھرتی اورپھر ہمارا سارا جسم زلزلے کی لپیٹ میںمعلوم ہوتا…ہچکیوں کا ایسا خوف ہمارے اعصاب پر طاری ہوچکا تھا کہ ہچکی بعد میں آتی اور ہم پہلیہی اچھل پڑتے!
’’ خاں،فوری ایک گلاس پانی اپنے حلق میں انڈیل لو!‘‘ گھوڑے خاں نے ہمیںمفت کے مشورے سے نوازا … ہدایت پاتے ہی ہم ایک گلاس پانی غٹا غٹ پی گئے!
’’ اب کیسا محسوس کررہے ہو؟‘‘
’’ہم ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے ہمارے وزن میں ایک گلاس پانی کااضافہ ہوگیا ہے!‘‘دریں اثناء ہم نے ایک اور ہچکی لی۔
’’چلو فوراً! ایک گلاس پانی اور پی لو۔‘‘
ہم نے پانی کاایک اور گلاس منہ سے لگا لیا، لیکن ہچکیاں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں…ہم نے بھی جلال میں آکرفیصلہ کرلیا کہ ہم اس وقت تک پانی پیتے رہیں گے جب تک کہ ہچکیاں رکیں گی نہیں… چنانچہ بنا سوچے سمجھے سات آٹھ گلاس پانی پی گئے ،جس کی بدولت ہمارا پیٹ، پیٹ نہ رہ کر گنڈی پیٹ بن گیا۔ گھوڑے خاں نے شرارتاً ہمارے پیٹ پرہلکا سا ہاتھ مارا تو ویسی ہی آواز ابھری جیسی عموماً ڈھول پر ہاتھ مارنے سے ابھرتی ہے۔
’’ گھوڑے! ہر ہچکی پریہ گمان ہورہا ہے کہ کہیں یہ ہماری آخری ہچکی نہ ہو۔‘‘ہم نے نہایت اداس لہجے میں کہا۔
گھوڑے خاں نے عرفان عارج کاشعر چھوڑا:
ایک ہچکی کی دیر ہے عارجؔ
پھر ترا غم بکھر چکا ہو گا
مشکوک حیدرآبادی نے گھوڑے خاں کو ٹوکتے ہوئے کہا:’’ نہیں نہیں!ایسی باتیں نہ کرو،‘‘ اور پھر ہمیںمشورہ دیا: سانس روک کر سات گھونٹ پانی پی لو۔‘‘
ہم نے مشکوک کی ناک پکڑکر پانی پینا چاہا تو وہ تنک کر بولے ’’ ارے میری نہیں اپنی ناک پکڑو اور سات گھونٹ پانی پی لو،انشاء اللہ ہچکی فوراً رک جائے گی۔‘‘
دوستو!ہم نے ناک ہی پر کیا منحصرہے ،اپنے کان تک پکڑ کر پانی اپنے حلق میں انڈیلا لیکن ہچکی کو نہ رکنا تھا ، نہ رکی…
پھر یہ ہوا کہ ہمارے چنددوست نمادشمنوں نے ہمارے تعلق سے یہ بات مشہور کردی کہ ہمارا آخری وقت آچکا ہے، لہٰذا ہمارے سارے قریبی دوست احباب ہمارے آخری دیدار کے لیے جوق در جوق ہمارے گھر آنے لگے ۔
’’آخرتم ہچکیاں کیوں لے رہے ہو؟‘‘
کلیم کلبلا ہم سے ایسے پوچھ بیٹھے جیسے ہم ہچکیاں شوقیہ لے رہے ہیں،ہم نے تڑخ کر جواب دینا چاہا تو آدھی بات ہمارے پیٹ کے اندر رہ گئی اور آدھی ہچکی کی نذر ہوگئی ۔
’’ تم ایک کام کرو، مصری منہ میں ڈال لو، یقین مانو تمہاری ہچکیاں ایسے تھم جائیں گی جیسے کبھی تھیں ہی نہیں۔‘‘کلیم کلبلا نے اپنا ٹوٹکا ہماری نذر کیا۔
’’ میاں ہچکیوں کے لیے صرف مصری نہیں مصری کے ساتھ سونف بھی کھانی چاہیے!‘‘احتیاط علی محتاط نے کہا۔
’’ارے نہیں نہیں!تم ایسا کرو ناریل کا پانی پیؤ پھر دیکھو اس کا کمال۔‘‘چمن بیگ نے مشورہ دیا۔
دریں اثنا ڈاکٹر ’’’منہ توڑکر ‘‘کو دندناتے ہوئے ہمارے ڈرائنگ روم میں وارد ہوئے، جنہیں محتاط نے فون کیا تھا اور پھر ہمیں چیک کرتے ہوئے بولے:’’ کب سے یہ شکایت ہے؟‘‘
’’ تقریباًچھتیس گھنٹوں سے!‘‘ہم نے مختصر سا جواب دیا۔
’’ لگتا ہے تمہارا معدہ خشک ہوگیا ہے۔‘‘
معدہ خشک ہونے کی بات سن کر ہمارا خون خشک ہوگیا…ہماری حیرت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر منہ توڑ کر نے فلسفہ جھاڑنا شروع کیا:معدے کی خشکی کی بات سن کر تم اتنے حیران کیوں ہوگئے …آج خلوص کی کمی سے لوگوں کے دل تک خشک ہوچکے ہیں ،پھرمعدہ کے خشک ہونے پر حیرت کیوں ؟ویسے بھی ہم فی زمانہ دل سے نہیں معدے سے سوچنے لگے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے باتوں باتوں میں بڑی گہری باتیں کہہ ڈالی تھیں… انہوں نے ہمیں مختلف ہدایات سے نوازتے ہوئے کہا کہ ہم ہچکیوں سے گھبرا کر بار بار پانی نہ پئیں، مصالحہ دار چیزوں سے پرہیز کریں،تلی ہوئی چیزوں کے پاس بھی نہ پھٹکیں…ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہم نے گولیاں نگلیں ، لیکن ہچکیوں کا سلسلہ ہنوز جاری تھا۔
’’ ہماری ہچکیاں آخررک کیوں نہیں رہی ہیں؟‘ ‘ ہم گھبرا کر مشکوک حیدرآبادی سے پوچھ بیٹھے…ویسے بھی ہچکیوں میں غیر معمولی شدت آگئی تھی، اب ہچکیاں جڑواں بلکہ تڑواں آرہی تھیں۔ہم بات کرنے کے موقف میں قطعی نہیں تھے، چنانچہ تحریر کا سہارا لیا ،جسے باآواز بلند مشکوک نے پڑھنا شروع کیا: ’ ہمیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا صاحب! ہمیں توپھول بانو کے بارے میں سوچ سوچ کر ڈر لگتا ہے!‘‘
’’آپ میری فکر ہرگز نہ کریں، ہچکیوں کو مات دینے کے لیے آپ حد سے گزر جایے!‘‘پھول بانو نے دروازے کی اوٹ سے اعلان کیا۔
’’ کیامطلب؟‘‘
’’ مطلب کو ماریے گولی، اورفوراً گولی کھایے!‘‘
’’ڈاکٹر کی گولی سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے بہتر ہے کہ آپ ہمارے سینے میں ریوالور کی گولی داغ دیں!‘‘ہم نے جھلا کر لکھ مارا۔
’’ میں آپ کے قتل کا الزام اپنے سر کیوں لوں، آپ خود سمجھدار ہیں!‘‘پھول بانو کا جواب تھا۔
’’ لگتا ہے بھابی کا اشارہ خودکشی کی طرف ہے، ،ویسے بھی ایسی اذیت سے تو موت بھلی….‘‘چمن بیگ نے شگوفہ چھوڑا۔
’’ بیکار باتیں مت کرو، ہمارا دوست پریشان ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے !‘‘ گھوڑے خاں گرجے اور پھر انہوں نے ڈاکٹر انجکشن والا کے ہاں چلنے کا مشورہ دیا…جس پر سبھی دوستوں نے حامی بھری۔
’’ کچھ دوائی لی؟‘‘ڈاکٹرانجکشن والا نے سوال داغا۔
’’ ہاں،لی تو ہے، یہ رہیں وہ گولیاں۔‘‘ہم نے اشاروں کا سہارا لیا۔
’’ جناب! آپ کو کس ڈاکٹر نے یہ گولیاں دیں؟ ‘‘ڈاکٹرانجکشن والا نے گولیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے رائے قائم کی۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ہم نے ہاتھ کے اشارے سے سوال دے مارا۔
’’آپ کوڈاکٹرنے ایسی گولیاں تھمادی ہیں جنہیں عام طورپر کھلاڑی استعمال کرتے ہیں اور ڈرگس لینے کے کیس میں پھنس جاتے ہیں!‘‘
ہمیں مسلسل باتوںمیں مصروف رکھ کر ڈاکٹر انجکشن والا نے ہمارے جسم میں کب انجکشن کی سوئی ٹھونسی پتہ ہی نہ چلا… دوائی نے ہمارے جسم میں پہنچتے ہی اثر دکھانا شروع کردیا اورہچکیاں فوری تھم گئیں۔ ہچکیوں کا اس طرح دم دباکر بھاگنا ، کسی کرشمے سے کم نہ تھا…
گھر آکر ہم نے خوشی خوشی رات کا کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ کر نیند کی آغوش میں پہنچنے ہی والے تھے کہ ہچکیوں کے ہچکولے دوبارہ شروع ہوگئے۔ہم بڑے بڑ پریشان ہوئے کہ یہ ہچکیاں دوبارہ کیوں شروع ہوگئیں؟ دفعتاً ہمیں خیال آیا کہ ڈاکٹر انجکشن والا نے ہمیں کھٹی اور تلی ہوئی چیزوںسے دور رہنے کو کہا تھااور ہم نے رات کے کھانے میںکھٹی دال، پاپڑ کھائے تھے…
دوستو!ایک وقت تھاکہ ہچکی کے آتے ہی بے ساختہ نعرہ مارا جاتاتھا ’’ضرور کسی نے یاد کیا ہے ‘‘ لیکن آج ہچکی تو آتی ہے لیکن ماضی کا وہ نعرہ کہیں گم ہوگیا ہے … کیوں کہ ہمیں اپنوں سے وہ محبت رہی اور نہ ہی وہ خلوص رہا، اس لیے اب ہم ہچکی آنے پر کسی کے یاد کرنے کا نعرہ مارنے سے بھی ہچکچاتے ہیں… جو لوگ خدا کو تک بھلا بیٹھے ہوں، وہ اپنوں کو بھلا کیا یاد کریں گے… ضرورت اس بات کی ہے کہ موت کی آخری ہچکی آنے سے قبل ہم سنبھل جائیں…
موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن
ساری ہستی کا خلاصہ اسی آواز میں ہے
OOO