[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ جنگ کی تحقیقات اور غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت سے پیدا ہونے والے بحران نے مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اہم ترین مسائل میں سے ایک کے طور پر جگہ دی ہے۔
برطانوی حکومت صیہونی- فلسطین تنازعہ کے اہم ترین بین الاقوامی کھلاڑیوں میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اس رجیم کی تشکیل اور حمایت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اس ملک نے سیاسی اور فوجی اعتبار سے غاصب رجیم کی مکمل حمایت کی ہے۔
لندن اور تل ابیب کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ
برطانیہ نے 1917 میں اعلان بالفور کی صورت میں صیہونی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اعلامیہ کو جاری کرنے کا برطانوی مقصد لندن کی پالیسیوں کے لیے طاقتور یہودی ڈاسپورا کی حمایت حاصل کرنا تھا۔
برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے صہیونی تحریک کی مشہور شخصیات میں سے ایک والٹر روتھ شیلڈ کو لکھے گئے خط میں یہودیوں کے لیے ایک وطن کا وعدہ کیا۔
اس خط میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی شاہی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کے قیام کو ممکن بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
اگرچہ فلسطین میں ایک کمزور حکومت موجود تھی لیکن یہ یہودیوں کے لیے بھی ایک مقدس سرزمین تصور کی جاتی تھی اور اس کا جغرافیائی محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل تھا۔
دوسری پورپی جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین کی طرف روانہ ہوئی جس کی پالیسی برطانیہ نے امریکہ کی حمایت سے ایک آزاد یہودی ریاست کے قیام اور صیہونیت کی سیاسی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے اختیار کی تھی۔
صیہونیوں کی سابقہ ہجرت کے علاوہ دوسری یورپی جنگ کے 5 سالوں میں یعنی 1939 سے 1944 تک مزید ایک لاکھ یہودی اس سرزمین پر آ گئے۔ 29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ممالک اسرائیل اور فلسطین میں تقسیم کرنے اور بیت المقدس شہر کو بین الاقوامی سطح پر چلانے کے منصوبے کی منظوری دی۔
اس منصوبے کو صہیونی رہنماؤں نے منظور کر لیا اور بالآخر مئی 1948ء میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزاد ریاست کا چارٹر جاری کر کے اپنے ناجائز وجود کا اعلان کیا۔
1960 کی دہائی میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بارے میں برطانیہ کی پالیسی عرب فریقوں کی کھلی حمایت جب کہ صیہونی رجیم کی خفیہ حمایت تھی۔ اس رجیم کو ٹینک بیچ کر برطانیہ نے مصر کی حکومت اور عبدالناصر کی قیادت میں عرب فوج کے درمیان توازن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1967 کی چھے روزہ جنگ کے دوران، برطانیہ نے صیہونی حکومت کو عرب فوجوں کے حجم اور صلاحیتوں کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس فراہم کیں۔
1973 میں یوم کپور جنگ کے بعد دیگر مغربی ممالک کی طرح لندن بھی تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک کے تیل کی پابندی کے نتائج سے متاثر ہوا۔
1975 میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 3379 کے خلاف ووٹ دیا، جس میں صیہونیت کو نسل پرستی کا مترادف سمجھا جاتا تھا۔
1980 کی دہائی فریقین کے درمیان سرد تعلقات کی دہائی تھی۔ اس دہائی کے آغاز میں لندن نے حکومت کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیوں کی مخالفت کی۔
1982 میں فالک لینڈ جنگ کے آغاز کے ساتھ، صیہونی حکومت کی ارجنٹائن کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی کا انکشاف فریقین کے درمیان سرد تعلقات کا باعث بنا۔ جس کا نتیجہ لبنان کی جنگ میں صیہونی حکومت کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کا نفاذ تھا۔
برطانیہ نے 1994 تک اس رجیم کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی جاری رکھی۔ اس دوران لندن نے اعلان کیا کہ وہ یروشلم کے کسی بھی حصے پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتا۔
1993 میں اوسلو معاہدے اور غزہ اور جیریکو سے حکومت کے انخلاء کے بعد فریقین کے درمیان تعلقات بڑھ گئے۔
نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی برطانیہ اور حکومت کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہوا۔ 2009 میں، برطانوی حکومت نے مغربی کنارے کی بستیوں میں پیدا ہونے والے سامان پر لیبل لگانے کا مسئلہ اٹھایا۔ اس کی وجہ سے صیہونی حکام نے لندن کو “بائیکاٹ تحریک” کا حامی سمجھا۔ فروری 2010 میں جب دبئی میں حماس کے ایک رہنما کے قتل کی کارروائی میں جعلی برطانوی پاسپورٹ استعمال کیے گئے تو اس معاملے سے اسرائیل میں برطانوی سفیر میتھیو گولڈ کا تعلق منکشف ہوا۔
2011 میں اینگلو-اسرائیل ٹیکنالوجی سینٹر تل ابیب میں لندن ایمبیسی میں کھولا گیا۔
2012 میں دو طرفہ تجارت میں 34 فیصد اضافہ ہوا۔
اس سال سے فریقین کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعلقات میں تیزی آئی ہے۔
گذشتہ عشرے میں دوطرفہ اقتصادی اور فوجی تعلقات میں اضافہ
برطانیہ اور صیہونی حکومت کے درمیان کاروباری تعلقات کی مالیت کا تخمینہ 7 بلین پاؤنڈ لگایا گیا ہے، اور برطانیہ میں 400 سے زیادہ رجیم ٹیکنالوجی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ لندن اور تل ابیب کے درمیان فوجی تعلقات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
2009 میں انگلینڈ نے اعتراف کیا کہ اس ملک میں بنائے گئے ہتھیاروں کو حکومت نے آپریشن کاسٹ لیڈ (غزہ میں 22 روزہ جنگ) میں استعمال کیا۔
2010 سے، دونوں ممالک نے واچ کیپر پروگرام کے ذریعے ڈرون کی تیاری میں تعاون کیا ہے، جسے برطانوی افواج عراق اور افغانستان میں استعمال کرتی رہی ہیں۔
2015 سے برطانیہ نے اس رجیم کو کم از کم 474 ملین پاؤنڈ ($601 ملین) کی فوجی برآمدات کی بھی اجازت دی ہے، جس میں جنگی طیارے، میزائل، ٹینک، چھوٹے ہتھیار اور ہتھیاروں کے پرزے شامل ہیں۔ بحری، زمینی، فضائی، خلائی، سائبر، اور برقی مقناطیسی صلاحیتوں کو مربوط کرنے کے لیے فوجی تعاون کو بھی وسعت دی گئی ہے۔
اردن کے ساتھ طویل ترین سرحد رکھنے کی وجہ سے صیہونی حکومت عمان کے لیے لندن کی فوجی مدد کو اپنی اسٹریٹجک ترجیح سمجھتی ہے۔
2017 سے رائل ایئر فورس کی موجودگی کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد نے فریقین کے درمیان فوجی تعاون کی ایک نئی سطح کو تشکیل دیا ہے۔ اس کے علاوہ، اگرچہ لندن نے فروری 2019 میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن تل ابیب لندن سے لبنانی حکومت پر جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے اہلکاروں کی تعیناتی اور اس کی میزائل صلاحیتوں کو روکنے کے لیے مزید دباؤ چاہتا ہے۔
دسمبر 2020 میں، برطانوی وزارت دفاع اور اس رجیم کے درمیان دفاعی طبی تربیتی تعاون کو بڑھانے کے لیے دفاعی تعاون کا معاہدہ طے پایا۔ دونوں نے مارچ 2023 میں ایک طویل مدتی معاہدے پر بھی دستخط کیے جو 2030 تک دفاع، سلامتی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنائے گا۔
برطانوی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ فریقین ایک جدید، اختراعی اور مستقبل کے حوالے سے تعلقات بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
7 اکتوبر کے بعد برطانیہ کی صیہونی حکومت کی حمایت
سیاسی حمایت
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد سیاسی اور سفارتی میدان میں برطانوی حکومت نے اس رجیم کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔
آپریشن سٹارم کے آغاز کے دو دن بعد، برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے کہا کہ “ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام مدد فراہم کریں گے کہ اسرائیل اس قسم کے حملے سے اپنا دفاع کر سکتا ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی دفتر خارجہ میں تعینات ہونے کے فوراً بعد یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہمیں اسرائیل کی بنیادی حمایت کر نی چاہیے اور یہ کہ اسرارئیل کو حماس اور اس کی مسلح افواج کی قیادت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنے کا حق حاصل ہے۔
فوجی حمایت
عسکری میدان میں لندن کی طرف سے تل ابیب کی حمایت نمایاں رہی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے بحران کے آغاز میں ایک بیان میں اعلان کیا: دو رائل نیوی کے جنگی جہاز، ایک P8 جاسوس طیارہ اور تین مرلن ہیلی کاپٹر خطے میں اسرائیل اور برطانیہ کے شراکت داروں کو عملی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
برطانوی جاسوسی طیارے خطے میں اڑان بھریں گے تاکہ علاقائی استحکام کو لاحق خطرات، جیسے دہشت گرد گروپوں کو ہتھیاروں کی منتقلی کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس کے علاوہ ماہرین کا خیال ہے کہ F-35 طیاروں سے غزہ پر بمباری میں استعمال ہونے والے تقریباً 15 فیصد پرزے برطانیہ نے فراہم کیے تھے۔ اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر ان طیاروں نے ہزاروں شہریوں پر بمباری کرنے اور فلسطینیوں کے بنیادی ڈھانچے اور گھروں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
غزہ میں حکومت کی فضائی کارروائیوں کے آغاز کے بعد برطانیہ نے قبرص میں بھی اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے جو مقبوضہ علاقوں سے تقریباً 200 میل دور ہے۔
حماس پر پابندیاں
2001 سے 2021 تک، برطانیہ نے دہشت گرد تنظیموں میں حماس کے عسکری ونگ عزالدین قسام بریگیڈز کو شامل کیا۔
لیکن نومبر 2021 سے اس نے باضابطہ طور پر پوری حماس تحریک کو ہی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔
عام طور پر ان سالوں میں حماس کے بارے میں برطانوی پالیسی معاندانہ رہی ہے۔ برطانیہ نے طوفان الاقصی کے بعد سے حماس کے رہنماؤں کے خلاف کئی پابندیاں عائد کیں۔
15 نومبر 2023 کو برطانوی وزارت خارجہ نے حماس کے چار رہنماؤں پر پابندیاں عائد کیں، جن میں غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار، قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضعیف، مروان عیسیٰ اور مغربی کنارے میں حماس کے نمائندے موسیٰ الدین حماس کے نائب شامل ہیں۔
جنگ بندی کے معاملے میں مغرب کی دوغلی پالیسی اور دو ریاستی حل
غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے فضائی اور زمینی حملوں میں توسیع اور اس خطے میں جنگ بندی کی علاقائی اور بین الاقوامی درخواستوں کے بعد، برطانیہ نے ابتدائی طور پر غزہ میں فوری جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں حصہ لینے سے پرہیز کیا۔ مزید برآں، ہاؤس آف کامنز میں اس ملک کے وزیر اعظم نے جنگ بندی کی حمایت کو دو شرائط سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ مستقل جنگ بندی کے قیام کی حمایت اس معنی میں کرتا ہے کہ حماس اسرائیل پر راکٹ داغنا بند کرے اور تمام قیدیوں کو رہا کرے۔ “
دوسری جانب، جنگ بندی کے پہلے دور کے بعد، ڈیوڈ کیمرون نے دسمبر 2023 میں اپنے واشنگٹن کے دورے میں دعویٰ کیا تھا کہ “اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کا انحصار نہ صرف اسرائیل کی مسلح طاقت پر ہے، بلکہ فلسطینیوں کی محفوظ اور پرامن زندگی بھی اس پر منحصر ہے” “لیکن اگر حماس غزہ کے ایک حصے پر بھی قبضہ کر لیتی ہے، تو کبھی بھی دو ریاستی حل نہیں ہو گا، کیونکہ اسرائیل سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہے جو 7 اکتوبر کو دوہرانا چاہتے ہیں۔
کیمرون نے یکم فروری 2024 کو اپنے لبنان کے دورے کے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ “برطانیہ کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے حماس کے رہنماؤں کا غزہ سے نکل جانا ضروری ہے۔”
نتیجہ
برطانیہ صیہونی رجیم کے قیام سے لے کر اب تک اس کی حمایت کرنے والے اہم ترین ممالک میں سے ایک رہا ہے۔ لندن نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اس حکومت کے قیام اور اس کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی مدد میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ملک پچھلی دہائی میں صیہونی حکومت کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک رہا ہے۔ طوفان الاقصی کے بعد برطانیہ کی صیہونی رجیم کی سفارتی اور فوجی حمایت میں شدت کے ساتھ حماس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ برطانوی حکام نے جنگ بندی کو فلسطینی حملوں کے خاتمے سے مشروط کر دیا۔ اس ملک کی پالیسیوں میں قابل ذکر نکتہ فلسطین کے مستقبل میں حماس کے کردار کی نفی کے ساتھ فلسطینیوں میں اس گروہ کی مقبولیت کو بھی نظر انداز کرنا ہے۔ برطانوی حکام کے حماس کے مستقبل کے حوالے سے بیانات، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ دو ریاستی حل کی حمایت بھی فلسطینیوں کے مفادات کے فریم ورک میں نہیں کر رہے، بلکہ قابض صیہونی رجیم کی مکمل حمایت کے تناظر میں کر رہے ہیں۔
سجاد مرادی کلاردہ، بین الاقوامی تعلقات کے محقق